کرپشن, اس کی اقسام اور اس کا حل,
تحریر: سعید مزاری,
ہمارے ہاں کرپشن کی دواقسام ہیں 1. کرپشن شوقیہ 2. کرپشن باامر مجبوری,
شوقیہ کرپشن کرنے والے کل کرپٹ عناصر کا بمشکل پانچ سے دس فیصد ہیں, لیکن بدقسمتی سے کرپشن کا 95 فیصد حصہ ان کے حصے میں جاتا ہے, پاکستان میں ان کی تعداد مجموعی طور پر کبھی دوہزار کے لگ بھگ ہوتی تھی لیکن اب یہ تقریبا" پانچ سے چھ ہزار سے زائد نہیں ہیں, اتنی کم تعداد میں ہونے کے باوجود یہ بے انتہا طاقتور ہیں اول تو یہ اپنی کرپشن ثابت نہیں ہونے دیتے لیکن اگر کسی وجہ سے یہ کرشمہ ہو جائے تو انہیں سزا نہیں ہو سکتی اور اگر یہ معجزہ بھی ہو جائے تو اس سزا کی نوعیت کچھ اس طرح سے ہوتی ہے کہ اس مزکورہ کرپٹ شخصیت نے کرپشن ایک کروڑ کی کی ہوتی ہے جبکہ ہمارا قانون یا عدالتی نظام اسے دوسال قید اور زیادہ سے زیادہ دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دیتا ہے, اب جس نے ایک کروڑ کی کرپشن کر رکھی ہوتی ہے وہ دس لاکھ جرمانہ دیکر اور پانچ لاکھ جیل انتظامیہ کو دے دیتا ہے اور وہاں اے کلاس لے لیتا ہے, اب اسے اس ایک سالہ قید کے دوران جیل میں اسے گھر سے بڑھ کر سہولیات میسر آ جاتی ہیں, مزید وہ کوئی دس لاکھ اور خرچ کر جاتا ہے اور جیل میں ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی گزارتا ہے, جب وہ نام نہاد قید سے رہا ہو کر باہر آتا ہے تو اس وقت تک وہ اپنی کل کرپشن سے پچیس لاکھ خرچ کر چکا ہوتا ہے لیکن اسے پچھتر لاکھ روپے کی بچت ہوتی ہے جب وہ باہر آتا ہے تو پھر وہ ایک کروڑ کی نہیں بلکہ پچاس کروڑ کی کرپشن کریگا, ایسے کرپٹ کو شوقیہ کرپٹ کہتے ہیں جو صرف دولت جمع کرنے کے شوق میں کرپشن کرتا ہے,
اب ہمارے ہاں کرپٹ عناصر کا ایک اور گروہ ہے جو شوقیہ کرپشن نہیں کرتا بلکہ اس سے کرپشن کروائی جاتی ہے وہ گروہ ہے کرپشن باامر مجبوری والوں کا,
ان کی کرپشن ہزاروں, لاکھوں میں ہوتی ہے یا فقط چند صورتوں میں کروڑ تک ویسے اس حد تک ہوتی نہیں ہے, یہ کرپٹ لوگ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن نسبتا" کمزور اور خوفزدہ ہوتے ہیں, آگے ان کی کرپشن کے بھی دواقسام ہیں ایک وہ جو یہ اپنے سینئرز کیلئے زبردستی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اس کرپشن کا انہیں شاید پانچ سے بیس فیصد تک حصہ نصیب ہوتا ہے اور باقی سب سینئرز لے جاتے ہیں, جبکہ ان کی کرپشن کی دوسری قسم ان کی اپنی مجبوریاں اور ضرورتیں ہوتی ہیں ایک سرکاری ملازم کی تنخواہ جو اندازا" دس سے بارہ ہزار سے شروع ہو کر آج کل چالیس ہزار تک ہوتی ہے لیکن اب اگر چالیس ہزار لینے والے بندے کو گھر سے کئی کلومیٹر دور تعینات کر دیا جائے اور اسے وہاں آنے جانے یا رہائش کی سہولت تک نہ دی جائے اور پھر اگر اس کی فیملی میں کم از کم دوبچے, بیوی, اور والدین ہوں تو پھر یہ حساب لگانا مشکل نہیں کہ اس کا بجٹ کیسے ہوگا, یہاں ایک ہلکا اشارہ دینا چاہوں گا تا کہ بات واضح ہو سکے,
1. اگر وی روزانہ گھر واپس آئے تو اس کا روزانہ وہاں سے گھر تک کم از کم دوسو روپے ٹرانسپورٹ, کم از کم ایک وقت کا کھانہ کم از کم ایک سو رو روپے یہ ماہانہ 9000 بنتے ہیں, ظاہر ہے کہ وہ اور کچھ نہیں تو کم از کم ایک سو روپے اپنے ظاہری حالت کو درست رکھنے پر بھی خرچ کرے گا, یوں ماہانہ بارہ ہزار اس کی تنخواہ سے نکل گیا اب جا بچا 28 ہزار,
2. گھر کے سات, آٹھ افراد کے راشن کا خرچ اگر میں کم سے کم بھی لگاؤں تو پندرہ سے بیس ہزار کے درمیان ہی رہے گا, چلیں ہم اسے بھی پندرہ رکھ لیں اب اس کے پاس باقی 13 ہزار بچا, دو بچوں کے سکول کی فیس کم از کم دوہزار, روزانہ جیب خرچ پچاس فی کس ماہانہ تین ہزار, بچوں کو سکول لانے لے جانے کا خرچہ چھ ہزار لگا لیں تو یہ رقم گیارہ ہزار روپے جا بنتی ہے, اب اس کے بعد اس بے چارے ملازم کے پاس فقط دوہزار روپے جا بچے, اب ان دوہزار روپوں میں سے اس نے مکان کا کرایہ دینا ہے, والدین کو کچھ نہ کچھ دینا ہے بیوی کی چھوٹی موٹی ضرورتیں پوری کرنی ہیں, معاشرے میں شادی اور غمی کے مواقع بھی نمٹانے ہیں, بیماری وغیرہ کا بھی سامنا کرنا ہے تو آپ خود سوچیں ان سب ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے اس کے پاس کرپشن کے سوا کون سا راستہ رہ جاتا ہے, بدقسمتی سے پاکستان میں87 فیصد سے زائد ایسے کرپٹ لوگ ہیں ان کی کرپشن سو روپے سے لیکر یومیہ اوسط تین ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہے بدقسمتی سے ان کو پکڑے جانے کی صورت میں سخت سزاؤں کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے, اور جب یہ سزا بھگت کر واپس آتے ہیں تو گھر میں بھوک اور مفلسی رقص کر رہی ہوتی ہے ان کو اب گھر کا چولہا جلانے کیلئے دوبارہ کرپشن کا سہارا لینا پڑتا ہے, البتہ اگر ان کی ضروریات کا ذمہ سرکاری طور پر لے لیا جائے جو یہ 87 فیصد لوگ رضاکارانہ طور پر کرپشن چھوڑنے پر آمادہ ہوتے ہیں, تین سے پانچ فیصد اپنے افسران کے کہنے پر کرپشن کر رہے ہوتے ہیں اگر ان کے بڑے کرپٹ افسران کو صحیح قانونی شکنجے میں لایا جائے اور انہیں سخت ترین سزا دی جائے تو یہ تین فیصد بھی راہ راست پر آ سکتے ہیں اب رہ گئے باقی دس فیصد یہ اس وقت تک ٹھیک نہیں ہو سکتے جب تک ہمارا عدالتی و قانونی نظام دوہرا ہو گا, امیر اور غریب کیلئے تفریقی قوانین اور رویوں کو ختم کر کے سب کیلئے ایک مساوی نظام بنا دیا جائے جیلوں میں اے بی سی کلاس والا سسٹم ختم کیا جائے عدالت میں ایک مساوی قانون اور نظام کو نافذ کردیا جائے اور شوقیہ کرپشن کرنے والے بڑے مگر مچھوں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کہ فقط ایک سال کے اندر اندر پورے ملک سے کرپشن جیسی ناسور کا نام و نشان تک مٹ جائے,
تحریر: سعید مزاری