Add 1

Sunday, May 3, 2020

کرونا وائرس کی وباء ،،،،، پریشان حال سفید پوش میڈیا ورکرز کا پرسان حال کون؟؟؟( Media workers facing Corona Virus)

 کرونا وائرس کی وباء ،،،،، پریشان حال سفید پوش میڈیا ورکرز کا پرسان حال کون؟؟؟

تحریر: سعید مزاریRindaannews@gmail.com

فون: 03334143061


'' اے ابنِ آدم ایک تیری چاہت ہے ایک میری چاہت ہے، تو ہو گا وہی جو میری چاہت ہے۔ پس اگر تو کردے گا وہ جو میری چاہت ہے تو میں عطا کر دوں گا وہ جو تیری چاہت ہے اور اگر تو کرے گا وہ جو تیری چاہت ہے تو میں تجھے تھکا دوں گا اس میں جو تیری چاہت ہے، پھر بھی ہو گا وہی جو میری چاہت ہے۔'' ( مفہوم حدیث قدسی)
آج کے جدید دور میں کرونا وائرس کی دنیا بھر میں تباہ کاریوں نے اس حدیث قدسی پر مہر ثبت کردی،  ترقی یافتہ ممالک جو خود کو دنیا کا ناخدا سمجھ بیٹھے تھے اور اپنی جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کے زعم میں دوسری اور تیسری دنیا کے ممالک اور لوگوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے تھے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک انتہائی حقیر اور عام آنکھ سے دکھائی تک نہ دینے والے ایک وائرس سے پوری دنیا کی بساط لپیٹ کر دکھا دی۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس ایک وائرس سے سب کچھ بدل کر رکھ دیا، انسان کو انسان سے تو دور کر ہی دیا اللہ نے انسانی ذہنوں میں اس معمولی سے وائرس کا ایسا خوف ڈال دیا کہ ہر فرد اپنے ہی سائے سے بھی ڈررہا ہے۔ تادم تحریر دنیا بھر میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد پچیس لاکھ کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے جبکہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ  اپنی جانوں سے جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ کم ہونے کی بجائے ہر آنیوالے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ دنیا کا کاروبار ٹھپ ہو گیا، بازار، مارکیٹیں، سڑکیں سب ویران ہو گئے ہر طرف خوف کے بادل اور گہرے ہوتے جا رہے ہیں ۔ دنیا میں بڑے بڑے ادارے بند ہو رہے ہیں یا پھر انہوں نے اپنا سٹاف انتہائی محدود کردیا ہے۔ گزشتہ چار ماہ سے دنیا بھر کے سائنسدان، ڈاکٹرز اس آفتِ خدا وندی سے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن تاحال اس مصیبت سے نکلنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ اس وقت پوری دنیا اس خطرناک وباء سے بچنے کی جنگ لڑ رہا ہے اس جنگ میں دنیا کا ہر فرد اپنی اپنی حیثیت اور بساط کے مطابق شریک ہے، تاہم ڈاکٹرز اور شعبہ صحافت سے منسلک لوگ کرونا وائرس سے بچاؤ کی اس جنگ میں فرنٹ لائن پر موجود ہیں ۔ ڈاکٹر حضرات ہسپتالوں میں کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کا علاج کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور اس وائرس کا توڑ ڈھونڈنے کیلئے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔ دنیا بھر میں ڈاکٹروں کے اس کردار کی ناصرف تعریف کی جا رہی ہے بلکہ کرونا وائرس سے متاثرہ مریضون کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں کو ہر طرح کی سہولیات باہم پہنچانے کا بھرپور اہتمام بھی کیا جا رہا ہے۔ پاکستان سمیت کئی ملکوں نے ڈاکٹروں کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے خصوصی اقدامات بھی کیے۔ ڈاکٹروں کیلئے خصوصی کٹس تیار کیے گئے ان کی تنخواہون مین غیر معمولی اضافے کے ساتھ ساتھ مزید مراعات بھی دیئے جا رہے ہیں۔  جو واقعی اچھا ہے ایسا ہونا بھی چاہیے، پاکستان میں بھی ڈاکٹروں کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے بے شمار سہولیات اور مراعات کی فراہمی کیلئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر حضرات کی ایک بڑی تعداد ہمیں اب بھی سہولیات کی کمی کا گلہ کرتے ہوئے اور احتجاج کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔  کچھ علاقوں اور شہروں کی حد تک ان ڈاکٹرون کے گلے شکوے اور مطالبات جائز بھی ہیں تاہم مجموعری طور پر ڈاکٹروں کو کرونا وائرس کی وباء سے بچاؤ اور ان کی خدمات کے حوالے ان کو ملنے والی سہولیات کم از کم موجودہ حالات میں کافی حد تک مناسب ہیں۔  ڈاکٹروں کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستانی حکومت نے بھی عام شہریوں کیلئے کم و بیش دو ماہ سے جاری لاک ڈاؤن کیلئے ریلیف پیکج کا ناصرف اعلان کیا بلکہ اربوں روپے کے فنڈز مستحق لوگوں کو دے بھی دیئے۔ ملک کے غریب اور مستحق افراد کیلئے اس مشکل وقت میں معمولی ہی سہی لیکن بروقت ملنے والی یہ امداد کسی نعمت سے کم نہیں، ابھی تو وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس حوالے سے مزید اقدامات کرنے کے خواہاں ہیں ۔ وفاق اور صوبائی حکومتوں کا اس اہم مسئلے کے دوران بروقت رد عمل اور اب تک کے اقدامات واقعی قابل تعریف ہیں۔
اس سارے معاملے میں یہ بات شدت سے مشاہدے میں آئی ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف اس جنگ میں ڈاکٹروں کے بعد دوسرے نمبر پر فرنٹ لائن پر موجود پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا ورکروں کو کم از کم پاکستان میں حکومت اور نجی ادارون کی طرف سے یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ میڈیا انڈسٹری کے چند ایک لوگوں کے علاوہ صحافتی اداروں کے بیشتر ورکروں کو ان حالات میں بھی بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں میڈیا ورکرز کو باوجود تمام وسائل کی دستیابی کے کرائسز کے وقت  ان کے اداروں سمیت حکومت کی طرف سے بھر پور سپورٹ فراہم کیا جاتا ہے اور ان کو دستیاب سہولیات میں کئی گنا اضافہ کردیا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے صورتحال اس سے یکسر مختلف ہے۔ پاکستان میں صحافتی ادارے پہلے ہی بے پناہ مسائل کا شکار ہیں  اور مختلف ادوار میں حکومتوں کی ذاتی پسند اور نا پسند سمیت ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بے شمار بڑے اور درمیانے درجے کے ادارے بند ہو گئے اور جو باقی بچے کھچے صحافتی ادارے موجود ہیں  حکومت کی ناقص منصوبہ بندی اور بلا جواز قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔ کسی ادارے کے اشتہارات بند ہیں تو کسی کے سر پر آئے روز پیمرا نوٹسز اور جرمانوں کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اب رہی سہی کسر کرونا وائرس کی وباء نے پوری کردی پاکستان کے کم و بیش سارے ہی صحافتی ادارے اس وقت تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں چینلز مالی بحران اور موجودہ لاک ڈاون کی وجہ سے پہلے سے تنگدستی کا شکار ورکروں کو لمبی چھٹیوں پر بھیجنے اور ملازمت سے فارغ کرنے پر مجبور ہیں۔ کئی اخباروں اور چینلز نے اپنا سٹاف  کم کرکے تیس سے چالیس فیصد پر لا کھڑا کردیا۔ اس بحرانی کیفیت میں متعدد ادارے ورکروں کو تین تین چار چار مہینوں کی تنخواہیں تک ادا نہیں کر سکے۔ صحافتی اداروں کے ورکرز جو پہلے ہی بہت زیادہ پریشان تھے اچانک کرونا کی آفت سر پر آجانے سے مزید مشکلات کا شکار ہو گئے۔ سفید پوشی کے بھرم یہ صحافتی ورکرز بدترین حالات کے باوجود اپنے صحافتی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ لیکن ستم ظریفی یہ کہ یہ ورکرز اپنا دکھڑا بھی کسی کو نہیں سنا سکتے۔ ان صحافتی ورکروں کے اپنے ادارے چاہتے ہوئے بھی ان کی کوئی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ وفاقی حکومت اور صوبوں نے یوں تو مختلف مواقع پر میڈیا ورکروں کیلئے زبانی جمع خرچ کے طور پر بڑے بڑے اعلانات کر رکھے ہیں تاہم عملی طور پر وہ تمام اعلانات فقط اعلانات ہی رہے، ماسوائے چند منظور نظر افراد کے تمام میڈیا ورکرز حکومت کی طرف سے کسی قسم کے ریلیف سے تاحال محروم ہیں۔ صحافی اور میڈیا ورکروں کو حکومت کی جانب سے کرونا وباء سے بچنے کیلئے جسی قسم کے حفاظتی کِٹس فراہم کیے گئے ہیں اور نہ ہی انہیں کرونا وائرس سے متعلق جاری کردہ کسی ریلیف پروگرام میں شامل کیا گیا۔ صحافتی ورکرز اپنی اور اپنے گھر والوں کی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر ناصرف اس کرونا وباء سے فرنٹ لائن پر رہتے ہوئے لڑ رہے ہین بلکہ عوام کو پل پل کی بدلتی ملکی و غیر ملکی صورتحال سے آگاہ بھی کر رہے ہیں ۔ صحافتی ادارون کے ورکرز بھی تو اسی ملک کے باشندے ہیں اور موجودہ لاک ڈاؤن کی صورتحال مین وہ اور ان کے اہلخانہ سمیت بچے بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں ۔ جو ورکرز اس بحران کے دوران اپنی نوکریاں گنوا چکے ہیں وہ کن حالات میں ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ میڈیا ورکرز میں فطری طور پر سفید پوشی کے بھرم کو قائم رکھنے کا عنصر ہوتا ہے اور ان کی اسی سفید پوشی کو دیکھتے ہوئے اکثر اوقات حکومت ، فلاحی ادارے اور مخیر حضرات بھی دھوکا کھا جاتے ہیں اور یہ سفید پوش ورکرز اکثر اوقات اپنے بچوں کو بھوکا سلانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ حال تو ان میڈیا ورکروں کا ہے جو باقائدہ طور پر صحافتی ادارون کے تنخواہ دار ہیں جبکہ دور دراز دیہاتوں اور چھوٹے علاقوں میں موجود او ایس آرز( آؤٹ سورس رپورٹر) اور اعزازی نمائندگان کی حالت زار تو اس سے بھی بدتر ہے۔ کیونکہ ان کو تو ویسے بھی عام حالات میں کوئی سرکاری اور پرائیوٹ ادارہ خاطر میں نہیں لاتا اور نہ ہی میڈیا ورکر تسلیم کرنے کیلئے تیار ہوتا ہے۔ چئہ جائیکہ ان کی کوئی مدد کرے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے ہونیوالے لاک ڈاؤن کے باعث اگر کوئی صحافتی ادارے کا ورکر پارٹ ٹائم کوئی چھوٹا موٹا کام کرکے اپنا گزر بسر کر لیتا تھا اب انہیں یہ سہولت بھی میسر نہ رہی۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مقامی انتظامیہ کا رویہ بھی علاقائی صحافیوں کے ساتھ صرف اپنے مطلب کی تکمیل کی حد تک ہی درست رہتا ہے ورنہ تو ان صحافیوں پر اکثر سرکاری اور نجی دفاتر کے دروازے بند ہی ہوتے ہیں ۔
کرونا وائرس کی وباء جس قدر ملک کے دیگر شہروں اور شعبوں کیلئے تباہ کن اور باعث تشویش ہے اسی طرح میڈیا ورکرز بھی اس وباء کے اثرات سے محفوظ نہیں ۔ کئی میڈیا ورکروں میں بھی کرونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے اور متعدد ایسے ہیں جن کے ٹیسٹ نہ ہونے کی وجہ کرونا کے مرض کو لیے اپنے فرائض کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ تو ایسے میں ضروری ہے کہ جس طرض ڈاکٹروں اور دیگر شعبہ کے لوگون کو ان مشکل حالات میں سہولیات اور دیگر مراعات دی جا رہی ہیں اسی طرح ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت تمام میڈیا ورکروں کو بھی ضروری سہولیات اور مراعات فراہم کی جائیں، تاکہ وہ بھی ان حالات کا احسن طریقے سے مقابلہ کر سکیں اور اپنے فرائض کی ادائیگی بہتر انداز میں کریں۔ اس حوالے سے سرگرم فلاحی ادارون اور مخیر حضرات کو بھی سفید پوش اور تنگدست میڈیا ورکروں کیلئے ان کی سفید پوشی اور عزت نفس کو ملحوظ رکھتے ہوئے اقدامات کرنے چاہییں جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر خالی اعلانات کرنے کی بجائے میڈیا ورکروں کی فلاح اور اس مشکل سے نکلنے کیلئے عملی اقدامات کریں تاکہ میڈیا ورکرز اور ان کے اہلخانہ کو بھی لگے کہ وہ بھی اسی ملک اور معاشرے کا حصہ ہیں اور حکومت سمیت سب کو ان کے مسائل کا بھی ادراک ہے۔  

World Press Freedom/ Freedom of Expression Day Reality or Fiction (اظہار رائے کی آزادی، حقیقت یا فسانہ)

اظہار رائے کی آزادی، حقیقت یا فسانہ

تحریر: سعید مزاری 

Email:rindaannews@gmail.com
فون: 03334143061
آج دنیا بھر میں آزادیِ صحافت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔  اقوام متحدہ نے یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس 1948 کی شق 19 کے تحت ہرسال 3 مئی کو آزادی صحافت کا عالمی دن (پریس فریڈم ڈے ) قرار دے رکھا ہے، اسے آزادیِ اظہارِ رائے کا دن بھی کہا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد دنیا بھر میں صحافت سے جڑے ہوئے لوگوں کی خدمات کا اعتراف کرنا اور اظہار رائے کی ازادی کیلئے کوششیں کرنے والے اور اس مقصد کیلئے قربانیاں دینے والوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ 1991 میں افریقی اخبارات کے صحافیوں نے آزاد صحافت کے حوالے سے کچھ اصول وضع کیے جو بعد ازاں وقتاً فوقتاً کچھ تبدیلیوں کے ساتھ قابل استعمال قرار پاتے رہے۔
آزادی اظہار رائے یا پھر آزادی صحافت کیلئے جدو جہد ایک طویل عرصے سے جاری ہے اور آج بھی دنیا میں 63 فیصد سے زائد ممالک میں صحافت اور اظہار رائے پر کسی نہ کسی طرح پابندی عائد ہے۔ دنیا کی مختلف صحافتی تنظیمیں آزادی صحافت اور آزادی اظہاررائے کیلئے مسلسل جدوجہد میں مصروف ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا کی بیشتر حکومتیں آزاد صحافت اور رائے کی آزادی کو ناپسند کرتی ہیں۔ باوجود اس کے کہ زبانی کلامی طور پر اس حوالے سے بڑے بڑے دعوے اور اعلان کیے جاتے ہیں عملی طور پر مقتدر حلقہ صحافت کو اپنی مٹھی میں بندکرکے رکھنے کا خواہشمند ہی دکھائی دیتا ہے۔ اور اپنی اس خواہش کی تکمیل کیلئے مختلف حیلے بہانوں سے ایسے ہتھکنڈے، قوانین اور اصول بروئے کار لاتے ہیں جن کی وجہ سے ناصرف کسی بھی صحافی یا صحافتی ادارے کیلئے آزادانہ طور پر کام کرنا مشکل ہوتا ہے بلکہ کسی بھی عام شہری کیلئے بھی اپنی رائے کا آزادانہ اظہار ممکن نہیں رہتا۔ اگر پھر بھی کوئی ادارہ ، صحافی یا کوئی شہری جراؑت کا مظاہرہ کرے اور مقتدر حلقوں یا ان کے زیرانتظام اداروں سے متعلق حقائق عوام  کے سامنے لے آئے اور ان کے غلد اقدامات پر تنقید کرے تو ایسے لوگوں اور اداروں کومقتدر اور طاقتور حلقوں کی طرف سے بے شمار سختیوں اور مسائل سے دوچار کردیا جاتاہے۔ انسانی حقوق کے طے شدہ قوانین کے مطابق دنیا کے ہر فرد کواپنے ارد گرد کے حالات سے باخبر رہنے اور اپنی رائے کے اظہار کی آزادی کا حق حاصل ہے۔ لیکن دنیا کی آمرانہ سوچ کی حامل حکومتوں اور شخصیتوں کو اظہاررائے کی آزادی اور لوگوں کو باخبر رکھنا انتہائی ناگوار گزرتا ہے۔ اس لیے ایسی حکومتیں ،اور شخصیات اداروں اور صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے سمیت حکومتی اقدامات پر تنقید کرنے والوں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے پریشان کرتے ہیں۔
سال 2020 کا آغاز ہی مختلف ممالک میں غیرجانبدارانہ رائے کا اظہار کرنے والے افراد اور صحافیوں کے خون سے ہوا ایک رپورٹ کے مطابق جنوری سے اپریل تک 7 صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لوگوں کو حقائق کی آگاہی دینے کے دوران جانبحق ہونے والوں میں عراق اور شام سے 2،2 جبکہ پاکستان،سومالیہ، پیراگوئے سے ایک ایک صحافی شامل ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں کی رپورٹس کے مشاہدے کے بعد یہ بات واضح ہے کہ آزادی اظہار رائے یا پریس فریڈم کے حوالے سے ترقی پذیر ممالک کی نسبت ترقی یافتہ اور خود کو انسانی حقوق کا علمبرادر سمجھنے والے امریکہ، چین اور بھارت جیسے ممالک اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے میں زیادہ  آگے ہیں۔ صحافیوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ( سی پی جے) کی طرف سے صحافیوں اور اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے دس انتہائی برے ممالک کی فہرست میں چین کا پانچواں نمبر ہے جبکہ اس لسٹ میں ایریٹیریا پہلے، جنوبی کوریا دوسرے،ترکمانستان تیسرے اور سعودی عرب چوتھے نمبر پر موجود ہے سی پی جے کی لسٹ میں ساتویں نمبر ایران بھی دکھائی دے رہا ہے۔ جبکہ ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکہ میں پریس فریڈم گزشتہ پانچ سالوں کی نسبت ٹرمپ دور میں زیادہ متاثر ہوا اور یہ پریس فریڈم اور اظہار رائے کے حوالے سے انتہائی برا وقت ہے۔
دنیا بھر میں آزادی اظہار رائے کے حوالے سے بلند و بانگ دعووں کے باوجود 1992 سے اپریل 2020 تک 1370 صحافی قتل ہوئے۔ ان سالوں میں 2009 کو صحافیوں کیلئے سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا گیا کیونکہ 2009 میں 76 صحافیوں کو فرائض کی ادائیگی کے دوران قتل کیا گیاجبکہ دوسرے نمبر پر 2012 اور 2013 کے سالوں کو صحافیوں کا قاتل سال کہا جا سکتا ہے ان دو سالوں کے دوران 148 صحافیوں کا قتل ہوااسی طرح 2015 میں بھی 73 صحافیوں کو پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنے جان کی قربانی دینی پڑی۔  1992 سے اپریل 2020 تک 872 صحافیوں کے قتل کے ایسے کیسز ہیں جو کئی سال گزر جانے کے باوجود التوا کا شکار ہو کرابھی تک کسی منتقی انجام کو نہیں پہنچے۔ امریکہ اور چین میں صحافیون کیلئے آزادانہ طور پر کام کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو چکا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اور ان کی حکومت ان دنوں صحافیوں اور صحافتی اداروں کے ساتھ مکمل طور پر برسرپیکار دکھائی دیتےہیں۔ نشریاتی اداروں اور صحافتی تنظیموں کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان دنوں پریس فریڈم اور اظہار رائے کی آزادی کو جس طرح سلب کررکھا ہے اس کی امریکی تاریخ میں گزشتہ 20 سالوں میں مثال نہیں ملتی۔ صحافیوں کو مختلف اوقات میں صدر ٹرمپ کی طرف سے دھمکیاں دینے اور عوامی مقامات پر صحافیوں کی تذلیل کرنے کے واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں۔  اسی طرح چین میں بھی صحافتی اداروں اور سوشل میڈیا پر اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے بے شمار پابندیوں کا سامنا ہے اور یہ چیز عام دیکھنے میں آئی ہے کہ چینی حکومت براہ راست صحافتی اداروں اور اظہار رائے کے پلیٹ فارمز کے معاملات میں دخل اندازی کرتی ہے اور وہاں پر سیلف سینسرشپ کا تناسب دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔  اظہار رائے اور پریس فریڈم کے حوالے سے کام کرنیوالے ایک بین الاقوامی ادارے فریڈم ہاؤس کی ایک سینئر ریسرچ ڈائریکٹر سارہ ریپیوسی نے کچھ عرصہ قبل جاری کردہ ایک رپورٹ میں باقاعدہ انکشاف کیا کہ پریس فریڈم اور آزادی اظہار رائے کے حوالےسے بڑے بڑے دعوے کرنیوالے ملک بھارت میں وہاں کی برسراقتدار پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) باقاعدہ طور پر ان مہمات اور اقدامات کی سپورٹ کرتی ہے جو حکومتی غلط اقدامات سے متعلق حقائق کو سامنے لانے والے اور سچائی پر مبنی تنقید کرنے والے صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے اور تشدد کرنے کیلئے منظم انداز میں شروع کیے جاتے ہیں معروف ریسرچر اور تجزیہ نگار سارہ ریپیوسی اپنی رپورٹ میں لکھتی ہیں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بذات خود اکثر صحافیوں کو حکومتی مرضی کی خبریں چلانے کیلئے ہدایات دیتے ہیں۔ فریڈم ہاؤس نے لکھا کہ دنیا کی کوئی بھی حکومت جب کوئی غیر جمہوری قدم اٹھانے لگتی ہے یا اٹھاتی ہے تو وہ سب سے پہلے میڈیا کو کنٹرول کرکے ان کی آزادانہ کام کرنے کا حق سلب کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ 2017 میں ایک ملیشئین صحافی کو فقط اس لیے قتل کردیا گیا کہ اس نے سیاستدانوں کی کرپشن کو نقاب کیا تھا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی قرار دیا گیا کہ امریکہ، وسطی ایشیا، اور افریکی ممالک میں 2014 سے لیکر 2019 تک اظہاررائے کی آزادی یا آزادی صحافت کے حوالے سے حالات میں فقط 3 فیصد کا فرق ہی دیکھنے میں آیا۔  مشرقی ایشیا کے حوالے سے اسی ادارے کی ایک اور سینئر ریسرچر سارہ کاک نے اپنی رپورٹ میں چین میں صحافتی اداروں میں سرکاری مداخلت میں مسلسل اضافے پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا۔
آزادی اظہار رائے کی سلبی میں یوں تو بھارت ہمیشہ سے ہی آگے رہا تاہم نریندر مودی کے دوبارہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد آزادی رائے کو دبانے کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ انتہا پسندانہ سوچ اور پرتشدد مزاج کے حامل مودی سرکار بھارت میں کئی سالوں سے مکین سکھ ، مسلمان اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ جو ظلم اور بربریت روا رکھے ہوئے ہے وہاں کے کسی فرد، ادارے یا صحافی کو اس ظلم و بربریت کی آزادانہ رپورٹنگ کی قطعی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ بھارتی حکومت نے صحافتی اداروں سے بڑھ کر سوشل میڈیا پر بے شمار پابندیاں عائد کررکھی ہیں اور خلاف ورزی کرنے پر انسانی حقوق کے برعکس سخت ترین سزائیں دینے کے واقعات عام ہیں ۔  مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشتگردی کو منظر عام پرآنے سے روکنے کیلئے بھارتی فوج اور حکومت وہاں کے صحافیوں کو آئے روز تشدد کا نشانہ بناتی اور ان کی نقل وحمل پر پابندیوں سمیت فون اور انٹر نیٹ کے استعمال پر بھی پابندیاں لگاتی رہتی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی اور پریس فریڈم کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ پاکستان میں 1994 سے اب تک 70 کے قریب صحافیوں کو قتل کردیا گیا، فریڈم نیٹ ورک نامی تنظیم نے انکشاف کیا کہ مئی 2019 سے اپریل 2020 تک 90 سے زائد صحافیوں پر تشدد اور حملوں کے واقعات ہو چکے ہیں فریڈم نیٹ ورک کے مطابق اس دوران سب سے زیادہ تشدد کے واقعات وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پیش آئے جن کی تعداد 34 ہے جبکہ دوسرے نمبر پر سندھ میں صحافیوں پر تشدد کے 24، پنجاب میں 20، خیبر پختونخوا میں 13 اور بلوچستان میں 3 واقعات رونما ہوئے۔
 فروری 2020 میں پاکستانی حکومت نے بڑی خاموشی کے ساتھ سوشل میڈیا سے متعلق قانون نافذ کردیا جس کے بعد صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کیلئے حکومتی اقدامات پر تنقید کرنا بہت مشکل ہو گیا۔ گزشتہ سال دسمبر میں نصراللہ چوہدری نامی صحافی کو دہہشتگردی کی عدالت نے ممنوعہ مواد کی تشہیر کے الزام میں پانچ سال قید کی سزا سنا دی۔ اسی طرح حکومت اور اس کے حامی اسٹیبشمنٹ پر تنقید کرنے کی وجہ سے معروف صحافیوں حامد میر، سلیم سافی، منیزہ جہانگیر، شاہ زیب خانزادہ سمیت متعدد اینکروں کے پروگرام بند اور سینسر کردیئے گئے۔ فروری 2020 میں سندھ کا ایک صحافی عزیز میمن کا مبینہ قتل ہوا جس کا تاحال یہ طےنہیں کیا جا سکا کہ عزیز میمن کو قتل کیا گیا یا پھر اس کی موت کسی اور وجہ سے ہوئی۔سی پی این ای کی گزشتہ سال جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال پاکستان میں 60 صحافیوں پر انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمات قائم کیے گئے ۔ سرکاری محکموں کے تقریباً تمام دفاتر میں حقائق کو چھپانے کیلئے صحافتی اداروں کے نمائندوں کے داخلے پر پابندی عائد ہے۔ کسی صحافی کو کسی ادارے میں ماسوائے اپنے مطلب کی رپورٹنگ کے موبائل کیمرہ تک لیجانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ حکومت کے نامناسب اقدامات اور متنازعہ پالیسیوں پر تنقید کرنے کے جرم میں پیمرا آئے روز ٹی وی چینلز کو نوٹسز اور جرمانے کرتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ اظہار رائے کی آزادی کو کم کرنے کیلئے موجودہ حکومت نے نئے اخبارات اور میگزینوں کے دیکلریشن کے اجراء پر بلاجواز پابندی عائد کررکھی ہے۔ اور چھوٹے اخباروں اور ادارون کو اشتہارات کی بندش اور ان کے واجبات کی عدم ادائیگی ان اداروں میں کام کرنے والے ورکروں کے بنیادی حقوق کو متاثرکرنے اور انہیں آزادنہ طور پر اپنی رائے کے اظہار سے روکنے کی کوشش ہے۔
بین الاقوامی اخبار گارڈین نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان کی موجودہ حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ عمران خان کی حکومت پر تنقید کرنے کا مطلب اخبار یا چینل کو بند کرنا ہے۔  گارڈین نے عمران خان کے دور حکومت میں میڈیا  اور اظہار رائے کی آزادی پر پابندیوں کو ایوب خان اور ضیاء الحق کے دور آمریت سے بھی زیادہ بدتر اور خطرناک قرار دیا۔ آزادی رائے یا آزادی صحافت کے اس عالمی دن کے موقع پر ایکبار پھر دنیا بھرسے بڑے بڑے دعوے اور اعلانات سامنے آئینگے اور تقریباً تمام ممالک کے سربراہان اور ذمہ داران آزادی رائے کی مکمل فراہمی کا اعادہ کرتے ہوئے نظر آئینگے لیکن حقیقت میں دنیا کے آمرانہ سوچ کے حامل حکمران کبھی بھی پریس فریڈم یا رائے کے اظہار کی آزادی کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائینگے۔ اب تک کے جو حالات اور اعداوشمار ہمارے سامنے ہیں اگلے سال ان میں بے بے انتہا اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ کیونکہ وقت بدل رہا ہے لیکن حکمران طبقے کی سوچ وہی ہے اور خود صحافتی حلقے بھی اپنی آزادی کا دفاع کرنے میں اس حد تک مؤثر انداز میں کام کرتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے جو موجودہ حالات کے مطابق وقت کی ضرورت ہے۔