کرونا وائرس کی وباء ،،،،، پریشان حال سفید پوش میڈیا ورکرز کا پرسان حال کون؟؟؟
تحریر: سعید مزاریRindaannews@gmail.com
فون: 03334143061
'' اے ابنِ آدم ایک تیری چاہت ہے ایک میری چاہت
ہے، تو ہو گا وہی جو میری چاہت ہے۔ پس اگر تو کردے گا وہ جو میری چاہت ہے تو میں
عطا کر دوں گا وہ جو تیری چاہت ہے اور اگر تو کرے گا وہ جو تیری چاہت ہے تو میں
تجھے تھکا دوں گا اس میں جو تیری چاہت ہے، پھر بھی ہو گا وہی جو میری چاہت ہے۔'' (
مفہوم حدیث قدسی)
آج کے جدید دور میں کرونا وائرس کی دنیا بھر میں
تباہ کاریوں نے اس حدیث قدسی پر مہر ثبت کردی،
ترقی یافتہ ممالک جو خود کو دنیا کا ناخدا سمجھ بیٹھے تھے اور اپنی جدید
ٹیکنالوجی اور وسائل کے زعم میں دوسری اور تیسری دنیا کے ممالک اور لوگوں کو کسی
خاطر میں نہیں لاتے تھے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک انتہائی حقیر اور عام آنکھ سے
دکھائی تک نہ دینے والے ایک وائرس سے پوری دنیا کی بساط لپیٹ کر دکھا دی۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس ایک وائرس سے سب کچھ
بدل کر رکھ دیا، انسان کو انسان سے تو دور کر ہی دیا اللہ نے انسانی ذہنوں میں اس
معمولی سے وائرس کا ایسا خوف ڈال دیا کہ ہر فرد اپنے ہی سائے سے بھی ڈررہا ہے۔
تادم تحریر دنیا بھر میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد پچیس لاکھ کے لگ
بھگ پہنچ چکی ہے جبکہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ
اپنی جانوں سے جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ کم ہونے کی بجائے ہر آنیوالے دن کے
ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ دنیا کا کاروبار ٹھپ ہو گیا، بازار، مارکیٹیں، سڑکیں سب
ویران ہو گئے ہر طرف خوف کے بادل اور گہرے ہوتے جا رہے ہیں ۔ دنیا میں بڑے بڑے
ادارے بند ہو رہے ہیں یا پھر انہوں نے اپنا سٹاف انتہائی محدود کردیا ہے۔ گزشتہ
چار ماہ سے دنیا بھر کے سائنسدان، ڈاکٹرز اس آفتِ خدا وندی سے نکلنے کی کوشش کررہے
ہیں لیکن تاحال اس مصیبت سے نکلنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ اس وقت پوری دنیا
اس خطرناک وباء سے بچنے کی جنگ لڑ رہا ہے اس جنگ میں دنیا کا ہر فرد اپنی اپنی
حیثیت اور بساط کے مطابق شریک ہے، تاہم ڈاکٹرز اور شعبہ صحافت سے منسلک لوگ کرونا
وائرس سے بچاؤ کی اس جنگ میں فرنٹ لائن پر موجود ہیں ۔ ڈاکٹر حضرات ہسپتالوں میں
کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کا علاج کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور اس وائرس کا توڑ
ڈھونڈنے کیلئے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔ دنیا بھر میں ڈاکٹروں کے اس کردار کی ناصرف
تعریف کی جا رہی ہے بلکہ کرونا وائرس سے متاثرہ مریضون کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں
کو ہر طرح کی سہولیات باہم پہنچانے کا بھرپور اہتمام بھی کیا جا رہا ہے۔ پاکستان
سمیت کئی ملکوں نے ڈاکٹروں کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے خصوصی اقدامات بھی کیے۔
ڈاکٹروں کیلئے خصوصی کٹس تیار کیے گئے ان کی تنخواہون مین غیر معمولی اضافے کے
ساتھ ساتھ مزید مراعات بھی دیئے جا رہے ہیں۔
جو واقعی اچھا ہے ایسا ہونا بھی چاہیے، پاکستان میں بھی ڈاکٹروں کیلئے
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے بے شمار سہولیات اور مراعات کی فراہمی کیلئے
اقدامات اٹھائے گئے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر حضرات کی ایک بڑی تعداد ہمیں اب
بھی سہولیات کی کمی کا گلہ کرتے ہوئے اور احتجاج کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ کچھ علاقوں اور شہروں کی حد تک ان ڈاکٹرون کے
گلے شکوے اور مطالبات جائز بھی ہیں تاہم مجموعری طور پر ڈاکٹروں کو کرونا وائرس کی
وباء سے بچاؤ اور ان کی خدمات کے حوالے ان کو ملنے والی سہولیات کم از کم موجودہ
حالات میں کافی حد تک مناسب ہیں۔ ڈاکٹروں
کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستانی حکومت نے بھی عام شہریوں کیلئے کم و
بیش دو ماہ سے جاری لاک ڈاؤن کیلئے ریلیف پیکج کا ناصرف اعلان کیا بلکہ اربوں روپے
کے فنڈز مستحق لوگوں کو دے بھی دیئے۔ ملک کے غریب اور مستحق افراد کیلئے اس مشکل
وقت میں معمولی ہی سہی لیکن بروقت ملنے والی یہ امداد کسی نعمت سے کم نہیں، ابھی
تو وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس حوالے سے مزید اقدامات کرنے کے خواہاں ہیں ۔ وفاق
اور صوبائی حکومتوں کا اس اہم مسئلے کے دوران بروقت رد عمل اور اب تک کے اقدامات
واقعی قابل تعریف ہیں۔
اس سارے معاملے میں یہ بات شدت سے مشاہدے میں
آئی ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف اس جنگ میں ڈاکٹروں کے بعد دوسرے نمبر پر فرنٹ لائن
پر موجود پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا ورکروں کو کم از کم پاکستان میں حکومت اور نجی
ادارون کی طرف سے یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ میڈیا انڈسٹری کے چند ایک لوگوں کے
علاوہ صحافتی اداروں کے بیشتر ورکروں کو ان حالات میں بھی بے یارومددگار چھوڑ دیا
گیا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں میڈیا ورکرز کو باوجود تمام وسائل کی دستیابی کے
کرائسز کے وقت ان کے اداروں سمیت حکومت کی
طرف سے بھر پور سپورٹ فراہم کیا جاتا ہے اور ان کو دستیاب سہولیات میں کئی گنا
اضافہ کردیا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے صورتحال اس سے یکسر مختلف ہے۔
پاکستان میں صحافتی ادارے پہلے ہی بے پناہ مسائل کا شکار ہیں اور مختلف ادوار میں حکومتوں کی ذاتی پسند اور
نا پسند سمیت ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بے شمار بڑے اور درمیانے درجے کے ادارے بند
ہو گئے اور جو باقی بچے کھچے صحافتی ادارے موجود ہیں حکومت کی ناقص منصوبہ بندی اور بلا جواز قانونی
پیچیدگیوں کی وجہ سے شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔ کسی ادارے کے اشتہارات بند ہیں
تو کسی کے سر پر آئے روز پیمرا نوٹسز اور جرمانوں کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اب رہی سہی
کسر کرونا وائرس کی وباء نے پوری کردی پاکستان کے کم و بیش سارے ہی صحافتی ادارے
اس وقت تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں چینلز مالی بحران اور موجودہ لاک ڈاون
کی وجہ سے پہلے سے تنگدستی کا شکار ورکروں کو لمبی چھٹیوں پر بھیجنے اور ملازمت سے
فارغ کرنے پر مجبور ہیں۔ کئی اخباروں اور چینلز نے اپنا سٹاف کم کرکے تیس سے چالیس فیصد پر لا کھڑا کردیا۔ اس
بحرانی کیفیت میں متعدد ادارے ورکروں کو تین تین چار چار مہینوں کی تنخواہیں تک
ادا نہیں کر سکے۔ صحافتی اداروں کے ورکرز جو پہلے ہی بہت زیادہ پریشان تھے اچانک
کرونا کی آفت سر پر آجانے سے مزید مشکلات کا شکار ہو گئے۔ سفید پوشی کے بھرم یہ
صحافتی ورکرز بدترین حالات کے باوجود اپنے صحافتی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ لیکن
ستم ظریفی یہ کہ یہ ورکرز اپنا دکھڑا بھی کسی کو نہیں سنا سکتے۔ ان صحافتی ورکروں
کے اپنے ادارے چاہتے ہوئے بھی ان کی کوئی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ وفاقی
حکومت اور صوبوں نے یوں تو مختلف مواقع پر میڈیا ورکروں کیلئے زبانی جمع خرچ کے
طور پر بڑے بڑے اعلانات کر رکھے ہیں تاہم عملی طور پر وہ تمام اعلانات فقط اعلانات
ہی رہے، ماسوائے چند منظور نظر افراد کے تمام میڈیا ورکرز حکومت کی طرف سے کسی قسم
کے ریلیف سے تاحال محروم ہیں۔ صحافی اور میڈیا ورکروں کو حکومت کی جانب سے کرونا
وباء سے بچنے کیلئے جسی قسم کے حفاظتی کِٹس فراہم کیے گئے ہیں اور نہ ہی انہیں
کرونا وائرس سے متعلق جاری کردہ کسی ریلیف پروگرام میں شامل کیا گیا۔ صحافتی ورکرز
اپنی اور اپنے گھر والوں کی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر ناصرف اس کرونا وباء سے فرنٹ
لائن پر رہتے ہوئے لڑ رہے ہین بلکہ عوام کو پل پل کی بدلتی ملکی و غیر ملکی
صورتحال سے آگاہ بھی کر رہے ہیں ۔ صحافتی ادارون کے ورکرز بھی تو اسی ملک کے
باشندے ہیں اور موجودہ لاک ڈاؤن کی صورتحال مین وہ اور ان کے اہلخانہ سمیت بچے بھی
شدید متاثر ہو رہے ہیں ۔ جو ورکرز اس بحران کے دوران اپنی نوکریاں گنوا چکے ہیں وہ
کن حالات میں ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ میڈیا
ورکرز میں فطری طور پر سفید پوشی کے بھرم کو قائم رکھنے کا عنصر ہوتا ہے اور ان کی
اسی سفید پوشی کو دیکھتے ہوئے اکثر اوقات حکومت ، فلاحی ادارے اور مخیر حضرات بھی
دھوکا کھا جاتے ہیں اور یہ سفید پوش ورکرز اکثر اوقات اپنے بچوں کو بھوکا سلانے پر
مجبور ہوتے ہیں۔ یہ حال تو ان میڈیا ورکروں کا ہے جو باقائدہ طور پر صحافتی ادارون
کے تنخواہ دار ہیں جبکہ دور دراز دیہاتوں اور چھوٹے علاقوں میں موجود او ایس آرز(
آؤٹ سورس رپورٹر) اور اعزازی نمائندگان کی حالت زار تو اس سے بھی بدتر ہے۔ کیونکہ
ان کو تو ویسے بھی عام حالات میں کوئی سرکاری اور پرائیوٹ ادارہ خاطر میں نہیں
لاتا اور نہ ہی میڈیا ورکر تسلیم کرنے کیلئے تیار ہوتا ہے۔ چئہ جائیکہ ان کی کوئی
مدد کرے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے ہونیوالے لاک ڈاؤن کے باعث اگر کوئی صحافتی ادارے
کا ورکر پارٹ ٹائم کوئی چھوٹا موٹا کام کرکے اپنا گزر بسر کر لیتا تھا اب انہیں یہ
سہولت بھی میسر نہ رہی۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مقامی انتظامیہ کا رویہ بھی
علاقائی صحافیوں کے ساتھ صرف اپنے مطلب کی تکمیل کی حد تک ہی درست رہتا ہے ورنہ تو
ان صحافیوں پر اکثر سرکاری اور نجی دفاتر کے دروازے بند ہی ہوتے ہیں ۔
کرونا وائرس کی وباء جس قدر ملک کے دیگر شہروں
اور شعبوں کیلئے تباہ کن اور باعث تشویش ہے اسی طرح میڈیا ورکرز بھی اس وباء کے
اثرات سے محفوظ نہیں ۔ کئی میڈیا ورکروں میں بھی کرونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے
اور متعدد ایسے ہیں جن کے ٹیسٹ نہ ہونے کی وجہ کرونا کے مرض کو لیے اپنے فرائض کی
ادائیگی کر رہے ہیں۔ تو ایسے میں ضروری ہے کہ جس طرض ڈاکٹروں اور دیگر شعبہ کے
لوگون کو ان مشکل حالات میں سہولیات اور دیگر مراعات دی جا رہی ہیں اسی طرح ایک
جامع منصوبہ بندی کے تحت تمام میڈیا ورکروں کو بھی ضروری سہولیات اور مراعات فراہم
کی جائیں، تاکہ وہ بھی ان حالات کا احسن طریقے سے مقابلہ کر سکیں اور اپنے فرائض
کی ادائیگی بہتر انداز میں کریں۔ اس حوالے سے سرگرم فلاحی ادارون اور مخیر حضرات
کو بھی سفید پوش اور تنگدست میڈیا ورکروں کیلئے ان کی سفید پوشی اور عزت نفس کو
ملحوظ رکھتے ہوئے اقدامات کرنے چاہییں جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ
وہ فوری طور پر خالی اعلانات کرنے کی بجائے میڈیا ورکروں کی فلاح اور اس مشکل سے
نکلنے کیلئے عملی اقدامات کریں تاکہ میڈیا ورکرز اور ان کے اہلخانہ کو بھی لگے کہ
وہ بھی اسی ملک اور معاشرے کا حصہ ہیں اور حکومت سمیت سب کو ان کے مسائل کا بھی
ادراک ہے۔
No comments:
Post a Comment