Add 1

Friday, January 21, 2022

محکمہ تعلیم سندھ کی دو کروڑوں روپے مالیت کی کئی گاڑیاں سابق وزرا کے پاس زیراستعمال ہونے کا انکشاف

محکمہ تعلیم سندھ کی دو کروڑ روپے سے زاٸد مالیت کی کئی گاڑیاں سابق وزرا کے پاس زیراستعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے
ان وزراء سے گاڑیاں واپس لینا محکمہ تعلیم سندھ کیلئے بہت مشکل ہوگیا۔ محکمہ تعلیم نے 12 گاڑیاں واپس کرنے کے لٸے چیف سیکریٹری سے مدد طلب کر لی
صوبائی محکمہ تعلیم کے افسران نےچیف سیکریٹری کو سابق وزرا اور افسران کے خلاف شکایت کردی
محکمہ تعلیم سندھ کے سامنے آنے والی دستاویزات کے مطابق سابق وزیر تعلیم جام مہتاب ڈہر کے پاس جی ایس ڈی 948 اور جی ایس ڈی 157 ٹویوٹا کرولا دو گاڑیاں ہیں اسی طرح سابق صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی نے پچیرو ایچ جی 352  ابھی تک واپس نہیں کی
محکمہ تعلیم سندھ کے سابق اسپیشل سیکریڑی رفیعہ حلیم کے پاس جی ایس ای 617 کورولا گاڑی زیراستعمال ہے
جبکہ ایک سابق وزیر کے اسٹاف افسر خادم لغاری کے پاس بھی محکمے کی ملکیت جی ایس 5733 آلٹو کارزیراستعمال ہے
پیپلز پارٹی کے رہنما نثار کھوڑو کے ذاتی پی آر او اعجاز جونیجو کے پاس بھی محکمہ تعلیم ہی کی جی ایس ای 059 کرولا گاڑی ہے صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ اعجاز جونیجو کے زیراستعمال گاڑی کیلئےپیٹرول اور دیگر اخراجات بھی محکمہ تعلیم ہی ادا کرتا تھا،

کراچی پورٹ پر ایک اور جہاز پھنس گیا

کراچی پورٹ پر ایک اور جہاز پھنس گیا
لائبیریا  رجسٹرڈ ایم ایس سی ایملیسے آنے والا کنٹینر جہاز خرابی کی وجہ سے  کراچی پورٹ کے چینل میں پھنس گیا
جہاز کا اسٹیرنگ وہیل خراب ہونے سے جہاز چینل میں پھنسا٫ جہاز کو نکالنے کے لیے کےپی ٹی کے 3 ٹگس کوشیش کر رہے ہیں
جہاز کے اسٹیرنگ میں خرابی ہونے کی وجہ سے گراونڈ ہوگیا٫ کے پی ٹی کے تین  ٹگز جہاز کو ہاربر نکالنے اور تیرانے پر لگے ہوئے ہیں کراچی پورٹ  کا چینل شپنگ کے لیے کھلا ہوا ہے

Members of National Assembly met PM Imran. وزیراعظم عمران خان سے ارکان قومی اسمبلی کی اہم ملاقات ہوئی۔



وزیراعظم عمران خان سے ارکان قومی اسمبلی کی اہم ملاقات ہوئی۔ 
ملاقات میں فیض اللہ کموکا، خواجہ شیراز محمود، شوکت علی بھٹی، حیدر علی خان، ثناء اللہ خان مستی خیل، محمد یعقوب شیخ، اورنگزیب خان کھچی اور جنید اکبر کی شرکت ۔ملاقات میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی ملک محمد عامر ڈوگر بھی موجود تھے۔
ملاقات میں متعلقہ حلقوں میں پارٹی کی تنظیم سازی اور ترقیاتی منصوبوں سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
وزیراعظم نے تمام منتخب عوامی نمائندوں کو ہدایت کی کہ وہ نہ صرف عوام کے ساتھ اپنی رابطہ مہم تیز کریں بلکہ ان کے مسائل کے فوری حل کے لیے ضلعی انتظامیہ کے ساتھ کوآرڈینیشن کو بھی بہتر بنائیں۔

PM Imran Khan Said٫ Sharif Family is acting like Mafia. شریف فیملی مافیا کا کردار ادا کررہی ہے۔ عمران خان۔

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت جمعہ کے روز ترجمانوں کا اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس میں ہائیکورٹ کے فیصلے پر تبادلہ خیال۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ عدالت نے شرہف فیملی کا کچا چٹھا کھول دیا ہے،
چیف جج کا ایفی ڈیویٹ نواز شریف کے بیٹے کے آفس میں نوٹرائزڈ ہوا ہے، مریم نواز کے کیس سے پہلے ایفی ڈیویٹ سامنے لایا گیا،
شریف فیملی ایک مافیا کی طرح ایکٹ کر رہی ہے، شریف فیملی ایک مافیا ہے، سروائیول کی جنگ لڑ رہا ہے۔ شریف فیملی خود کو بچانے کی جنگ لڑ رہی، ہم عوام کی جنگ لڑ رہے ہیں شریف فیملی ہمیشہ عدالتوں پر اثر انداز ہوتی رہی اور ایسے حربے استعمال کرتی رہی ہے، ہمیں اس مافیا کا مقابلہ کرنا ہے، آج عدالت نے انہیں ایکسپوز کر دیا ہے۔

پانی کا بحران پر صوبوں کی لڑائی۔۔۔۔ تحریر: سعید مزاری Water Conflict in Pakistan

پانی کا بحران پر صوبوں کی لڑائی۔۔۔۔  
تحریر: سعید مزاری
پانی اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہے جس کے بغیر دینا کا وجود قائم رہنا ناممکن ہے، ماضی میں پانی کے مسئلے پر جنگوں کے احوال سے انسانی تاریخ بھری پڑی ہے، اور عالمی حالات پر نظر رکھنے والوں نے مستقبل میں بھی پانی کے مسئلے کو انسانوں کی بقاء کیلئے سنگین ترین خطرہ قرار دیا، اس وقت کئی ممالک پانی کی قلت سے دوچار ہیں اور آنے والے وقتوں میں یہ قلت عالمی امن و امان کو تہہ و بالا کر سکتا ہے۔
پانی کے بحران والے ممالک میں بدقسمتی سے پاکستان بھی شامل ہے، پاکستان کا وسیع و عریض رقبہ زرخیز ہونے کے باوجود فقط پانی کی قلت کے باعث بنجر پڑا ہوا ہے۔ پاکستان میں پانی دریاؤں، بارشوں اور پہاڑوں پر موجود گلیشیئر کے پگھلنے سے حاصل ہوتا ہے، جبکہ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں زیر زمین پانی یا تو سرے سے موجود ہی نہیں یا پھر وہ پانی اپنی ساخت، آلودگی اور وہاں کی مٹی کے حساب سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے ناقابل استعمال ہے۔ پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے اس لیے پاکستان میں پانی کی کھپت بھی زیادہ ہے، پاکستان میں زرعی مقاسد کیلئے درکار پانی کی ضروریات کو بہتر انداز میں پورا کرنے کیلئے ارسا اتھارٹی قائم کی گئی ہے جو ملک کے چاروں صوبوں کو پانی کی منصفانہ تقسیم کی ذمہ دار ہے۔ 
ارسا اتھارٹی میں وفاقی حکومت سمیت تمام صوبوں کے نمائندگان شامل ہیں جو پورا سال ملک میں دریاؤں اور ڈیموں سے پانی کے بہاؤ، ذخائر اور ضروریات کے معاملات کو مانیٹر کرتے ہیں، ارسا اتھارٹی پانی کے دستیاب وسائل کے مطابق سوبوں کو پانی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرتا ہے۔ 
1992 میں ارسا آڑڈیننس کے بعد صوبوں کے مابین ہونیوالے معاہدے اور بعد ازاں اس میں ہونیوالی ترامیم کے مطابق دریائے سندھ کے پانی کا 47 فیصد پنجاب کیلئے مختص ہے، اسی طرح سندھ کا حصہ 42 فیصد، خیبر پختونخواہ کیلئے 8 فیصد جبکہ بلوچستان کیلئے صرف 3 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ صوبوں کے یہ حصے ان کی آبادی، زیرکاشت زرعی رقبہ، وہاں پر کاشت ہونیوالی فصلوں اور ملک میں دستیاب آبی وسائل کو مدنظر رکھ کر باہمی رضا مندی سے ترتیب دیئے گئے ہیں۔ لیکن دیکھنے میں یہ آیا کہ تمام صوبے پانی کے حوالے سے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ 
یوں تو پانی پر صوبوں کی لڑائی کوئی نئی بات نہیں بلکہ عشروں سے سیاستدان پانی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آتے رہے۔ تاہم گزشتہ چند روز سے پانی کے مئسلے کو جس انداز میں پیش کیا جارہا ہے اس نتائج آنے والے وقتوں کیلئے وطن عزیز کیلئے تشویش کا باعث بن سکتے ہیں۔ چند روز قبل ارسا اجلاس کے دوران سندھ اور بلوچستان کی طرف سے پنجاب پر ایکبار پھر اپنے حصے سے زائد پانی استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ اس اجلاس میں  ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں سندھ کی طرف سے کم پانی ملنے کے الزام کو رد کیا گیا اور کہا کہ سندھ ناصرف پانی کا اپنا پورا حصہ وصول کرتا رہا بلکہ بلوچستان کے پانی کا بھی بیس فیصد سے زائد غلط اعدادوشمار کے ذریعے لے جاتا رہا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سندھ نے گڈو بیراج اور سکھر بیراج سے خارج ہونیوالے پانی کے اعدادوشمار میں ہیر پھیر اور غلط بیانی سے کام لیا۔ گڈو بیراج سے جب بائیس ہزار کیوسک پانی خارج ہو رہا تھا تب اعدادوشمار میں اس پانی کا اخراج فقط چھ ہزار کیوسک بتایا گیا اسی طرح سکھر بیراج سے بھی پانی اخراج کے اصل اعدادوشمار کو کم کرکے دکھایا گیا۔ ارسا نے آبی ذخائر کی میں کمی کے سبب پنجاب اور سندھ کو پانی کی ترسیل میں چند روز کمی ضرور کی لیکن جونہی تربیلا ڈیم اور دریائے سندھ میں پانی کی مقدار میں اضافہ ہوا تو دونوں صوبوں کو پانی کی فراہمی بھی بڑھا دی گئی۔ ارسا اتھارٹی نے واضح کیا کہ ارسا اتھارٹی میں چونکہ تمام صوبوں کی نمائندگی ہے تو اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی ایک صوبے کے حصے کا پانی کم کردیا جائے اور دوسرے کا بڑھا دیا جائے۔ تاہم فراہم کردہ پانی کے مقدار میں کمی بیشی کا دارومدار آبی ذخائر کی دستیابی پر منحصر ہے۔ 
اس وقت پنجاب سے 26 میل دریائی پانی گزر کر سندھ میں داخل ہوتا ہے اور پنجاب حکومت  کے اعدادوشمار کے مطابق پنجاب صرف چھ فیصد پانی ضائع کرتا ہے۔ تاہم آزاد ذرائع کے مطابق پنجاب میں دریا اور پہاڑی نالوں سے نکلنے والے پانی کا تقریباً 13 فیصد ضائع ہو جاتا ہے لیکن سندھ میں یہی پانی تقریباً چھ سو میل سفر کرتا ہے اور اس کا ضیاع محتاط اندازے کے مطابق تیس فیصد سے زائد ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے الزام عائد کیا کہ سندھ پانی کے جس مقدار کو ضائع ظاہر کررہا ہے وہ وہاں کے وڈیرے چوری کرلیتے ہیں۔ جبکہ سندھ کا کہنا ہے کہ انہیں کبھی بھی حصےکا پانی ملا ہی نہیں۔ اسی طرح بلوچستان کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ سے ان کا حصہ سات ہزار کیوسک منظور ہے لیکن انہیں ایک ہزار سے بارہ سو کیوسک سے زیادہ پانی نہیں دیا جاتا۔ صوبوں کے ایک دوسرے پر الزام تراشی اور تحفظات کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا گیا کہ پانی کے حوالے سے نہروں اور بیراجوں پر واٹر ٹیلی میٹری سسٹم لگانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن ملک کے بڑے صوبوں نے اس سسٹم کی مخالفت کردی۔ جہاں سے چھوٹے صوبوں میں یہ احساس بڑھا کہ واقعی چھوٹے صوبوں کے حصے کا پانی بڑے صوبے استعمال کررہے ہیں۔ اگر ٹیلی میٹری سسٹم لگ جائے تو اس سے ناصرف چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ختم ہو جائے گی بلکہ بڑوں صوبوں کے مابین موجود تحفظات اور الزام تراشی کا باب بھی بند ہو جائے گا۔ ملک میں بھی اس سے زرعی انقلاب کے نئے باب کھل جائینگے۔ لیکن افسوس کہ ایسے معاملے کو بھی سیاست کی نظر کردیا گیا۔ گو کہ وفاق نے صوبوں کے مابین پانی کی فراہمی کے معاملے کی مانیٹرنگ کیلئے فی الوقت واٹر انسپکٹر تعینات کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا جو کہ ملک کے اہم بیراجوں ، نہروں اور بڑے راجباہوں پر پانی کا بہاؤ مانیٹر کرینگے۔ تاہم اس میں احتمال ہے کہ یہ انسپکٹر صوبائی حکومتوں کے دباؤ کا شکار ہو کر ایکبار پھر غلط اعدادو شمار کے ذریعے صوبوں کے مابین تلخیوں کو بڑھانے کا سبب نہ بن جائیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملک میں پانی کے اس مسئلے کے دیرپا حل کیلئے ناصرف آبی ذخائر میں اضافہ کیا جائے اور تمام صوبوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر سائنسی بنیاد پر قابل عمل اور شفاف نظام وضع کیا جائے۔ تاکہ ملک کے تمام حصے سیراب ہو کر اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ شامل کر سکیں۔ تمام صوبوں کو بھی چاہیے کہ وہ دل بڑا کرکے ایک دوسرے کا حق تسلیم کریں اور خوش دلی سے سب کو ان کا حصہ دیں۔ اس سے وفاق مضبوط ہوگا اور جب وفاق مضبوط ہوگا تو وہ بیرونی دشمنان وطن کا زیادہ مؤثر انداز میں مقابلے کے قابل ہوگا۔ بصورت دیگر افغانستان، بھارت سمیت دیگر ہمسائے ممالک تو ہمارے خلاف آبی جارحیت کے منصوبوں پر کئی دہائیوں سے عم پیرا ہیں۔

کوہ سلیمان اور دیائے سندھ ڈاکوؤں کی طویل اور محفوظ آماجگاہوں کا ذمہ دار کون؟تحریر: سعید مزاری

عنوان: کوہ سلیمان اور دیائے سندھ ڈاکوؤں کی طویل اور محفوظ آماجگاہوں کا ذمہ دار کون؟
تحریر: سعید مزاری (rindaannews@gmail.com)
نہ تعلیم، نہ روزگار، اوپر سے قبائلیت کی یلغار، اور جب  قانون نافذ کرنے والے  اور انتظامی ادارے  بھی ہوں سیاسی مصلحت کے شکار تو پھر  پنجاب سے سندھ تک ڈاکوؤں کی کیوں نہ ہو للکار،ڈیرہ غازی خان  کی پہاڑوں سے لے کر سندھ کے دریائی علاقوں تک ہر فرد ہے عدم تحفط کا شکار۔
وطن عزیز کے نقشے پر نظر دوڑائیں تو عین وسط میں جنوبی پنجاب  کے اضلاع ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، راجن پور اور رحیمیار خان  کے علاقے دکھائی دیتے ہیں ، جبکہ ان سے متصل  صوبہ سندھ کے اضلاع کشمور، گھوٹکی اور مشرق کی جانب کوہ سلیمان کے  پہاڑی سلسلے کے دوسری طرف بلوچستان کے اضلاع   بارکھان، ڈیرہ بگٹی اور ڈیرہ مراد جمالی واقعہ ہیں ۔ 
گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ملک بھر میں سب سے زیادہ تعداد میں ڈاکوؤں کے خطرناک ترین گینگ بھی  جنوبی پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کے ملحقہ علاقوں سے سامنے آئے،ڈیرہ غازی خان ڈویژن کی کل آبادی لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ ہے اور یہاں پر سب سے زیادہ تعداد بلوچ قبائل کی ہے، لغاری، مزاری، بزدار، کھوسہ، گورچانی یہاں کے مشہور و معروف اور بااثر قبائل شمار کیے جاتے ہیں ،ان قبائل کے بیشتر سردار ناصرف سیاسی طور پر انتہائی متحرک ہیں بلکہ تقریباً قیام پاکستان سے اب تک ان قبائل کے نامور سردار صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز  چلے آ رہے ہیں ،
ماضی میں صدر مملکت سردار فاروق لغاری، نگران وزیراعظم میر بلخ شیر مزاری، وزیراعلیٰ پنجاب سردار سیف کھوسہ، غلام مصطفیٰ کھر،  ذوالفقار خان کھوسہ، سابق ڈپٹی سپیکر سردار شوکت مزاری، سردار شیرعلی خان گورچانی، حالیہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار، ڈپٹی سپیکر پنجاب میر دوست محمد مزاری جیسی شخصیات کا تعلق بھی ڈیرہ غازی خان ڈویژن سے ہے۔ڈیرہ غازی خان ڈویژن کا محل وقوع جہاں جغرافیائی لحاظ سے اہم ہے وہاں دفاعی اعتبار سے بھی اس خطے کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے، مشرق میں  میں دشمن ملک بھارت کی اس خطے پر نظر ہے، بھارت پاکستان کو ایک اور زخم دینے کیلئےاسی راستے سے بلوچستان میں رسائی کا خواہشمند ہے،سیاسی، جغرافیائی اور دفاعی لحاط سے اس قدر اہم خطہ  تعمیر و ترقی کے حوالے سے روز اول ہی سے حکومتوں  کی عدم توجہی  کا شکار رہا ہے، ڈیرہ بگٹی  ، بارکھان اور ڈیرہ مراد جمالی ہوں یا پھر سندھ  کے  علاقے  کشمور، جیکب آباد، شکار پور اور گھوٹکی  ، یہ تمام علاقے تعلیم، روزگار سمیت زندگی کی دیگر بنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہیں ،  لوگوں کا گزر اوقات  کا ذریعہ گلہ بانی، کاشت کاری یا  پھر محنت مزدوری ہے، قانون کی عمل داری تو درکنار اس کا تصور بھی ان علاقوں میں موجود نہیں ہے، بظاہر پولیس ، عدالتیں  اور دیگر انتظامی ادارے تو موجود ہیں تاہم عملی طور پر ان سب کا اثر رسوخ کہیں موجود نہیں ہے، اصل حکومت ان علاقوں کے سرداروں ، وڈیروں اور سیاسی لوگوں کی ہے۔ 
کوہ سلیمان کے قبائلی علاقوں میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کیلئے بارڈر ملٹری پولیس، رینجرز اور بلوچ لیویز تعینات ہے، جبکہ ڈیرہ غازی خان ، راجن پور، مظفر گڑھ ، سمیت سندھ کے میدانی علاقوں میں پولیس جرائم پر قابو پانے کیلئے موجود ہے،  تاہم  جرائم پیشہ گروہوں کے ارکان کی  آپس میں قبائلی رشتہ داریوں، سیاسی اثر رسوخ اور وسائل کی کمی کے باعث یہ تمام اداروں کو  شہریوں کو تحفظ دینے میں خاطر خواہ کامیابی  نہیں مل پا رہی، ان علاقوں میں جرائم کی شرح میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ جہاں قبائلی سرداری نظام ، غربت ، جہالت کو قرار دیا جا سکتاہے وہاں پر قانون نافذ کرنیوالے اداروں میں چھپی کالی بھیڑیں بھی امن کی راہ مین بڑی رکاوٹ ہیں ، ڈیرہ غازی خان،راجن پور، رحیمیار خان، کشمور، گھوٹکی اور شکار پور سمیت اس خطے میں موجود تمام جرائم پیشہ عناصر کو جدید ترین اسلحے کی سپلائی کوہ سلیمان کے راستے سے ہوتی ہے،   جبکہ دریائے سندھ کے درمیان موجود جزیرہ نما کچے کے علاقے خطرناک گروہوں کیلئے کسی جنت سے کم نہیں، ڈاکوؤں کے گروہوں نے کچے کے علاوہ بھی ہرعلاقے  اور ادارے میں  اپنے سہولت کار بنا رکھے ہیں جو انہیں پل پل کی خبر پہنچاتے رہتے ہیں۔ 

حال ہی میں صوبہ سندھ کے علاقہ شکار پوراور کشمور میں مسلح ڈاکوؤں کیجانب سے دس افراد کے قتل، اغوا اور جنوبی پنجاب کے ڈیرہ غازی خان میں لادی گینگ کی وحشیانہ کارروائیوں نے ایکبار پھر ملک بھر میں  ہر شخص کو تشویش سے دوچار کردیا ہےسندھ  میں ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے بکریاں چوری کرنے کیخلاف مزاحمت پر ایک ہی خاندان کے دس افراد کو بے دردی سے قتل کردیا اور بعد ازاں سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز ویڈیو بھی شیئر کردی، جبکہ شکار پور میں ڈاکوؤں نے بے گناہ لوگوں کو اغوا کرلیا، آپریسن کیلئے جانیوالی پولیس کی بکتر بند گاڑی قابو کر لی اور کئی جوانوں کو شہید اور زخمی کردیا، اسی طرح  ڈیرہ غازی خان کے بدنام ترین لادی گینگ کی ایک سفاکانہ ویڈیو نے جہاں انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیئے وہاں اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے بڑوں کو بھی  ایسے وحشیانہ گروہوں کا سر کچلنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھنے کیلئےمجبور کردیا، لادی گینگ کے ارکان نے مخبری کے شبہ  اغوا کے بعد اعضاء کاٹ دیئے اور اس وحشیانہ اقدام کی ویڈیو بنا وائرل بھی کی گئی، لاقانونیت کا یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری و ساری ہے، جنوبی پنجاب کے اہم ترین ڈیرہ غازی خان ریجن  سے سندھ کے وسط تک پھیلے دریائی کچے کے علاقوں میں اس وقت مختلف ناموں سے چھوٹے بڑے پچاس سے زائد جرائم پیشہ گروہ سرگرم ہیں ، جو اہم شاہراہوں پر ڈکیتی و راہزنی کی وارداتوں، اغوا برائے تاوان، قتل،  بھتہ خوری، زمینوں پر قبضے سمیت دیگر وارداتوں میں ملوث ہیں، ان جرائم پیشہ گروہوں کا آپس میں مضبوط ربط ہے، یہ گروہ ایک دوسرے کو اسلحہ  فراہمی کے ساتھ ساتھ افرادی قوت اور مشکل وقت میں پناہ سمیت ہر طرح کی مدد بھی باہم پہنچاتے ہیں، جنوبی پنجاب میں منظم جرم کی یہ داستان 1996 میں حافظ ریاض بسرا کے جھنگوی گروپ کے قیام سے  شروع ہوئی، بظاہر یہ گروپ ایک مذہبی گروہ کے طور پر سامنے آیا جو ناموس اہلبیت اور ناموس صحابہ کے نام پر اپنے مخالف عقیدے کے حامل افراد کو سبق سکھانے کیلئے وجود میں لایا گیا تھا، لیکن بعد ازاں اس گروہ نے خطرناک ترین ڈکیت اور دہشتگرد گینگ کی شکل اختیار کرلی، ایک وقت آیا کہ ریاض بسرا کا نام مسلکی اختلاف رکھنے والوں سمیت بڑےکاروباری حضرات سمیت  عام شہریوں کیلئےبھی خوف کی علامت بن گیا، جھنگوی گروپ کے بعد پھر آئے روز ایک نیا گروہ سامنے آنے لگا،  1998 میں ضلع مظفر گڑھ کے علاقوں علی پور اور اردگرد میں قتل، راہزنی اور اغوا برائے تاوان جیسی وارداتوں میں ملوث ایک اور گروہ سامنے آ گیا جو بوسن گینگ کے نام سے جانا گیا، بوسن گینگ کو اصل شہرت 2001 میں حاصل ہوئی جب پولیس کو کچے میں مجود اس کے ٹھکانوں کے خاتمے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، اس آپریشن مین بوسن گینگ کے مسلح ارکان نے پولیس کو بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچا کر پچھاڑ دیا تھا، بوسن گینگ اس خطے کا وہ پہلا ڈکیت گروہ تھا جس نے  دریائے سندھ کے کچے کے علاقوں  اور کوہ سلیمان  کی گھاٹیوں میں موجود چھوٹے چھوٹے جرائم پیشہ گروہوں کو اپنے ساتھ ملا کر مظفر گڑھ ، ڈیری غازی خان، راجن پور ، رحیمیار خان سمیت جیکب آباد ، گھوٹکی اور بلوچستان میں علیحدگی پسندوں  تک نامور جرائم پیشہ لوگوں سے تعلقات استوار کرلیے اور اپنا مضبوط نیٹ ورک بنا لیا۔
بوسن گینگ، مریدا نوہکانی گینگ، راجن پور کے کچے میں موجود بابا لونگ گینگ، ضلع رحیمیار خان اور گھوٹکی کے کچے کے علاقوں میں موجود بھنڈر گینگ، شر گینگ، کوش گینگ کے ارکان  پنجاب ، سندھ میں وارداتیں کرتے اور وارداتوں سے حاصل آمدن آپس میں تقسیم کرلیتے، ان گینگز نے خود کو محفوط رکھنے کیلئے اور مخبری کیلئے  بی ایم پی  اور پولیس  افسران، سیاستدانوں، سرداروں ، وڈیروں  سمیت مخصوص افراد سے تعلقات بنا لیے، جو انہیں نا صرف اہم معلومات فراہم کرتے بلکہ قانونی  کارروائیوں اور وارداتوں کے بعد  اور مکمل سہولت کاری فراہم کرتے ہیں، بلوچستان کے علیحدگی پسند گروہ جنوبی پنجاب اور سندھ میں موجود ان خطرناک گروہوں کوملکی و غیر ملکی جدید ترین  اسلحہ  فراہم کرتے ہیں، جو مبینہ طور پر بی ایم پی  اور محکمہ پولیس میں موجود ڈاکوؤں کے سہولت کاروں کے ذریعے ان تک پہنچائی جاتی  ہے، وارداتوں کے دوران لوٹ مار اور اغوا برائے تاوان سے حاصل ہونیوالے اسباب کی تقسیم کے دوران ان گروہوں میں آپس کی لڑائیاں بھی ہوتی ہیں، ایسی ہی لڑائی کی وجہ سے راجن پور کے کچے میں موجود بابا لونگ گینگ نے بوسن گینگ کے ارکان کو دھوکے سے بلوا کر اور کھانے میں نشہ آور شئے دے کر پولیس کے ہاتھوں مروا دیا، بابا لونگ گینگ  کا مرکز راجن پور کی تحصیل روجھان کا دریائی علاقہ کچہ جمال اور اس سے ملحقہ علاقے تھے، جبکہ بابا لونگ گینگ انڈس ہائی وے، کے ایل پی روڈ پر لوٹ مار کے ساتھ ساتھ رحیمیار خان، کشمور، راجن پور، ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور تک اغوا برائے تاوان اور ڈکیتی وارداتیں کرتا رہا،  بابا لونگ گروہ کی کارروائیوں سے متاثر،  پولیس اور مقامی وڈیروں کی زیادتیوں سے تنگ آ کرغلام رسول باکرانی نامی شخص نے ایک مقامی ہوٹل کی بیراگیری چھوڑ کربابا لونگ کے ڈکیت گروہ میں شمولیت اختیار کرلی، بظاہر ایک عام شخص دکھائی دینے والا غلام رسول باکرانی انتہائی کم عرصے میں بابا لونگ گینگ کا اہم ترین رکن بن گیا اور چھوٹو کے نام سے معروف ہو گیا، بابا لونگ کا گروپ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا تو پھر اسی گروپ کے کچھ لوگوں کو ملا کر اور علاقے مزید جرئم پیشہ افراد کو اپنے پاس اکٹھا کرکے غلام رسول باکرانی عرف چھوٹو نے اپنا الگ گینگ بنا لیا، جو بعد ازاں مشہور معروف چھوٹو گینگ کے نام سے نا صرف راجن پور اور رحیمیار خان کے علاقوں میں دہشت کی علامت  سمجھا جانے لگا بلکہ اس گروہ  نے اپنی کارروائیوں کا دائرہ پورے پنجاب سمیت سندھ اور بلوچستان تک پھیلا دیا، چھوٹو گینگ کا نام پہلی بار اس وقت سامنے آیا جب  2005 میں اس گینگ نے سی پیک پر کام کرنے والے 5 چینی انجینئروں کو اغوا کرلیا،  اس وقت ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی سردار شوکت مزاری نے صوبائی حکومت کی درخواست پر ذاتی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے چینی انجینئروں کو تاوان کے بدلے باحفاظت رہا کروا لیا،  اس واقعے بعد چھوٹو گینگ کو شیہہ مل گئی اور اس نے بڑی بڑی کارروائیاں  ڈالنا شروع کردیں، 2005 میں چھوٹو گینگ کے خلاف پولیس نے ایک بڑے آپریشن کی تیاری کی لیکن جب آپریشن کا وقت آیا تو روجھان سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی سردار نے اس آپریشن کی مخالفت کی اور اس وقت مقامی حکومت میں ہونے کے باعث اس سردار کی مداخلت اور مخالفت کے باعث آپریشن ملتوی کردیا گیا۔
چھوٹو گینگ نے بوسن اور بابا لونگ گینگ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ڈیرہ غازی کے لادی گینگ اور مریدا نوہکانی گینگ سے تعلقات قائم کرلیے، لادی گینگ جو دراصل ڈیرہ غازی خان کے کھوسہ  قبیلے کے بگڑے ہوئے نوجوانوں کا گروہ تھا ان کا مرکز کوہ سلیمان  پر واقعے تمن کھوسہ، تمن لغاری ، تمن بزدار  کے علاقے تھے، عام تاثر پایا جاتا ہے کہ اس گروہ کو تمن کھوسہ کے سرداروں ، وڈیروں اور مقامی ایم پی ایز اور ایم این ایز کی سرپرستی حاصل رہی ہے، یہ لوگ اس گروہ کو ڈی جی سیمنٹ فیکٹری ، اور دیگر ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے ٹھیکیداروں اور کمپنیوں سے بھتہ وصولی، سیاسی و سماجی مخالفین کو سبق سکھانے، افسران کو ڈرانے دھمکانے اور علاقے کے بڑے بڑے تاجروں  اور بڑی برادریوں پر اثر انداز ہونے کیلئے استعمال کرتے ہیں ، مریدا نوہکانی گینگ اور لادی گینگ میں کئی بار آمنا سامنا بھی ہوا ہے، مریدا نوہکانی گینگ اب عملی طور پر تقریباً ختم ہو چکا ہے، کیونکہ اس گینگ کے اکثر ارکان قبائلی دشمنیوں ، پولیس مقابلوں اور آپس کے اختلافات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں لادی گینگ کا اصل سربراہ مبینہ طور پر ایک پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا اور اس کے اور بھی کئی ارکان مبینہ پولیس مقابلوں اوراختلافات کے سبب اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں  اس لیے موجودہ لادی گینگ دراصل وہی لادی گینگ نہیں بلکہ یہ چاکرانی گینگ ہے جسے خدا بخش چاکرانی لیڈ کرہاہے، اور یہ گروہ کم و بیش 47 افراد پر مشتمل ہے، جس مین سے 17 افراد انتہائی مطلوب ڈکیت ہیں، اس گینگ پر جب بھی کوئی مشکل وقت آتا ہے تو یہ یا تو کوہ سلیمان کی پہاڑوں مین چھپ جاتے ہیں جہاں انہیں علیحدگی پسند فراریوں کی امداد میسر ہو جاتی ہے یا پھر یہ راجن پور، رحیمیار خان، اور سندھ کے کچے کے علاقوں میں جا کر چھپ جاتے ہیں اور حالات ٹھیک ہونے پر دوبارہ اپنی کمین گاہوں میں واپس لوٹ آتے ہیں۔ لادی گینگ کے خلاف جاری حالیہ آپریشن کے دوران بھی یہی معلومات آ رہی ہیں کہ اس کے بیشتر ارکان آپریشن شروع ہونے سے قبل ہی اپنے ٹھکانوں سے فرار ہوچکے ہیں اور سیکیورٹی فورسز کو اس آپریشن میں خاطر خواہ کامیابی ملنے کے بہت کم امکان ہیں۔ ماضی میں بابا لونگ گین گ کے خلاف متعدد آپریشنز کیے گئے جن میں مجموعی طور پر پولیس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، پھر چھوٹو گینگ کے خلاف کم و بیش 12 آپریشن کیے گئے لیکن ہر بار زیادہ نقصان مقامی افراد اور پولیس کا ہی ہوتا رہا، راجن پور ، مظفر گڑھ  اور رحیمیار خان پولیس نے آپریشنوں میں درجنوں پولیس اہلکار اور افسران شہید کروائے،  بالآخر 2016 میں 24 پولیس اہلکاروں کی رہائی کیلئے پاک فوج کو آپریشن کرنا پڑا، اس آپریشن کے دوران چھوٹو گینگ کا سربراہ غلام رسول عرف چھوٹو نے اپنے 13 ساتھیوں سمیت گرفتاری دی، اور پھر پولیس کے مغوی اہلکاروں نے رہائی پائی،  چھوٹو گینگ سے متعلق ایک جے آئی ٹی بنی ، جے آئی ٹی کی چھوٹو گینگ سے متعلق تحقیقات میں انتہائی ہولناک انکشافات سامنے آئے کہ اس گینگ کو پولیس کے چند اعلیٰ افسران، اہلکاروں اور مقامی چند سرداروں اور وڈیروں نے کس طرح استعمال کیا، اور کس طرح اس گروہ کی سہولت کاری کی گئی۔ چھوٹو گینگ پر بننے والی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں باقاعدہ طور پر محکمہ پولیس  کے ملازمین سمیت دیگر سہولت کاروں کے نام بھی دیئے اور چھوٹو گینگ کے پورے نیٹ ورک  کو ایکسپوز کیا اس رپورٹ میں علاقے کے نامور سیاستدان اور اُس وقت کی حکومت میں موجود افراد کے نام بھی سامنے آئے تھے، لیکن بدقسمتی سے چھوٹو گینگ کے سہولت کاروں کے خلاف مؤثر کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی،  اس کا نقصان یہ ہوا کہ چھوٹو کا گینگ ختم نہ ہوا بلکہ اس کے باقیات  فقط تین ماہ بعد ہی لٹھانی، عمرانی، بنوں، عطاء اللہ پٹ، لُنڈ اور دولانی گینگ کی شکل میں سامنے آ گئے،  اور آج تک یہ گینگ پورے علاقے میں سرگرم ہیں،  چند روز قبل بھی لٹھانی گینگ نے روجھان کے کچے سے دو پولیس اہلکاروں  کو اغوا کرلیا، جنہیں بازیاب کروانے کیلئے بظاہر علاقے مین آپریشن کیا گیا جبکہ حقیقت میں اہلکاروں کو چھڑوانے کیلئے ڈاکوؤں سے بااثر شخصیات کے ذریعے مزاکرات کیے گئے اور ان مذاکرات کے نتیجے میں پولیس نے پہلے بھورل لٹھانی نامی ڈاکوؤں کے ساتھی کو رہا کیا جس کے بدلے میں ڈاکوؤں نے دونوں اہلکاروں کو رہا کیا۔ کچھ ذرائع سے یہ بھی خبریں موصول ہو3ئی ہیں کہ اہلکاروں کے اغوا کا سارا معاملہ ہی ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہی عمل مین لایا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس افسران اور لٹھانی گینگ کے مابین بھورل کی رہائی کے حوالے سے تمام معاملات پہلے ہی  لاکھوں روپے کے نذرانے کے عوض طے پا چکے تھے، ڈوکوؤں اور ڈیل کرنے والے پولیس کے ذمہ داران کی باہمی رضامندی سے دونوں اہلکاروں کا اغوا کیا گیا اور بعد ازاں اسے جواز بنا کر بھورل لٹھانی کی رہائی کیلئے راہ ہموار کی گئی۔ اسی طرح کشمور میں چاکرانی قبیلے کے دس افراد کے قاتل ڈاکوؤن کے خلاف آپریشن چل رہا ہے اس آپریشن کی حقیقت بھی یہی ہے کہ پولیس نے ڈاکوؤں سے مقابلے کیلئے دس افراد کی جانیں گنوانے والے چاکرانی برادری ہی کو آگے کردیا، اور خود ان سے پیچھے اپنے کیمپوں میں بیٹھ کر آپریشن کی فرضی ویڈیوز اور خبریں جاری کرکے کارکردگی دکھائی جارہی ہے۔ شکار پور میں تیغانی ، تنگوانی، سمیت دیگر اقوام کےجو ڈاکو سرگرم ہیں ڈیرہ غازی خان ، راجن پور، کشمور کی طرح یہاں کے کچے کے علاقوں میں بھی آپریشن کا فیصلہ کیا گیا جو گزشتہ کئی روز سے جاری ہے لیکن پولیس دعوؤں  برعکس  وہاں پرپنجاب پولیس کی طرح سندھ پولیس کوبھی کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو رہی، ڈاکوؤں سےکہیں زیادہ نقصان سندھ پولیس کا ہو رہا ہے،باخبر ذرائع کے مطابق شکار پور میں ڈاکووں کی معانت کیلئے لُنڈ گینگ، عطاءاللہ پٹ  گینگ اور فراریوں کے ارکان علاقے میں جود ہیں موجود ہیں ،جبکہ انہیں مقامی سرداروں اور وڈیروں سمیت اپنے قبائل کے لوگوں کی طرف سے بھی پولیس کے مقابلے میں امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ شکار پور میں ڈاکووں اور ان کی سرپرستی کے حوالے سے بیس صفحات پر مشتمل ایک جامع رپورٹ  سابق ایس ایس پی شکار پور ڈاکٹر رضوان نے بناکر کر اعلیٰ افسران کو دی، اس رپورٹ میں ڈاکتر رضوان نے ناصرف ڈاکووں کی نشاندہی کی بلکہ مکمل ثبوتوں اور فون کال ریکارڈ کی تفصیل کے ساتھ ان ڈاکووں کے سہولیت کاروں کو بھی بے نقاب کیا، ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اس رپورٹ پر کارروائی کرتے ہوئے ناصرف ڈاکوؤں کا قلع قمع کیا جاتا بلکہ ان کے سہولت کاروں اور سرپرستوں کو بھی نشان عبرت بنایا جاتا لیکن اس کے برعکس ہوا یہ کہ ڈاکٹر رضوان کو سندھ حکومت کی جانب سے ناصرف پریشان کیا گیا بلکہ انہیں وہاں سے بھی ہٹا دیا گیا۔ ڈاکٹر رضوان نے اپنی رپورٹ مین واضح لکھا کہ پیپلز پارٹی کے رہنما و سندھ حکومت کے چند وزراء و مشیران اور ان کے عزیز و اقارب شکارپور میں ڈاکوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ رپورٹ نے سندھ میں کھلبلی مچا دی اور انجام کے طور پر ڈاکٹر رضوان کو ہی ہٹا دیا گیا۔ 
ڈاکو خواہ کسی بھی علاقے مین ہوں ان کا خاتمہ تب تک ممکن نہیں جب تک کہ ان ڈاکوؤں کو رسد پہنچانے والے، پل پل کی خبر پہنچانے والے، پناہ دہنے والے ان کی سرپرستی کرنیوالے اور ان کو ہر طرح کی سہولت باہم پہنچانے والے افراد خواہ وہ کوئی بھی ہوں ، کسی بھی محکمہ میں کسی بھی عہدے پر فائز ہوں کا خاتمہ نہ کیا جائے۔ ملک میں امن و امان کے قیام کیلئے عدالتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے کیونکہ اثر دیکھا گیا ہے کہ جرائم پیشہ بڑے بڑے لوگوں کو کسی نا کسی طرح عدالتون سے بھی ریلیف مل جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اور مضبوط ہو جاتے ہین اور مزید بدامنی کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کو ان علاقوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے حکومت کو چاہیئے کہ جہاں سہولیات زندگی کی کمی، روزگار، تعلیم اور صحت کی سہولیات کا فقدان ہے اور اس وجہ سے لوگوں میں تشدد پسندی فروغ پا رہی ہے تو ان علاقوں میں تمام ضروری سہولیات فراہم کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے تاکہ ان علاقون کے لوگ احساس محرومی کا شکار ہو کر جرائم کا راستہ اپنانے کی بجائے ریاست کی طرف سے فراہم کردہ سہولیات سے فائدہ اٹھا کر ایک اچھے شہری اور معاشرے کیلئے کارآمد انسان بن سکیں۔ 

تحریک انصاف حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی دوڑ

عرضداشت
عنوان: تحریک انصاف حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی دوڑ
تحریز: سعید مزاری 
دسمبر کے ٹھٹھرتے موسم میں پاکستانی سیاست کا پارہ چارسُو گرم دکھائی دے رہا ہے ناقدین ان حالات کو پاکستان تحریک انصاف کی تین سالہ دور اقتدار میں انتظامی نااہلی قرار دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں پی ٹی آئی حکومت ملکی معاملات چلانے میں ناکام رہی اور ان کی پالیسیوں کے سبب ایوزیشن کو متحد ہونے کا موقع ملا۔ بظاہر ناقدین کی یہ رائے معقول دکھائی دے رہی ہے کیونکہ پاکستانی عوام نے پی ٹی آئی کے ان تین سالوں کے دوران ہر آنیوالے دن کو گزشتہ روز سے مشکل ترین پایا۔ تین سالوں کے دوران ملکی معاشی عشاریوں میں جو خطرناک کمی واقع ہوئی اس سے ایک طرف عام آدمی کی آمدن اور قوت خرید کم ہوگئی دوسری طرف بری ایڈمنسٹریشن کا خمیازہ عوام کو بدترین مہنگائی کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پورے ملک میں کہیں کسی شعبے میں کسی بھی چیز پرکوئی چیک  اینڈ بیلنس ہے ہی نہیں۔ سیاسی لوگوں کی نااہلی کے سبب پاکستانی بیوروکریسی خودکو  دنیاکی طاقتور ترین بیورو کریسی سمجھتی ہے یہی بیورو کریسی ان تین سالوں کے دوران ملکی معاملات اور عوام کو درپیش مشکلات سےلاتعلق ہوکر بیٹھے ایسے تماشہ دیکھ رہی ہے جیسے کہ میدان میں ریچھ اور کتوں کو لڑتے ہوئے دور بیٹھے تماشائی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ 
عمران خان اس ملک کو کرپشن سے پاک کرکے ایک عوامی فلاحی ریاست بنانے کا منشور لے کر وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچے۔ انہوں نے وزیراعظم بننے کے بعد ریاست مدینہ کو رول ماڈل قرار دیتے ہوئے پاکستان کو اسی طرز پر نیا پاکستان بنانے کا اعلان کیا۔ گو کہ انہوں نے اس کیلئے چند ایک اقدامات ایسے اٹھائے بھی جن پر چل کر ایک اچھی ریاست کا قیام ممکن ہو۔ لیکن عمران خان کو اپنے اطراف موجود مفاد پرست لوگوں نے بری طرح اپنے شکنجے میں پھنسا لیا ہے۔ وہ عمران خان کو اپنے چرب زبانی سے سبزباغ دکھا کر ایسے فیصلے کروا لیتے ہیں جو بظاہر خوشنما دیکھائی دیتے ہیں لیکن ان کا ملکی معیشت اور عوام کی معاشی حالت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ اوپر سے عمران خان کو ایوزیشن بھی ایسی ملی کہ جو عمران خان کو ناکام اور نااہل ثابت کرنے کیلئے کسی بھی جائز ناجائز حد تک جانے کیلئے صف آراء ہے۔ عمران خان کی مخالفت میں ایوزیشن کے جو لوگ دہائیوں سے ایک دوسرے کے خلاف تھے ساری رنجشیں بھلا کر یا پھرعارضی طور پر ناراضگیوں کو کسی کونے میں رکھ کر میدان میں ہے ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ عمران خان کو کامیاب نہیں ہونے دینا خواہ اس لیے پورے ملک اور یہاں کی ساری عوام کی زندگیوں کو داؤ پر لگانا پڑ جائے۔ 
دراصل گزشتہ تیس پینتیس سال سے پاکستان میں صرف دو جماعتوں کی حکومتیں رہیں ان دونوں جماعتوں نے ہر دور میں اپنی مخالف پارٹی کی حکومت کو سازشوں سے گرایا اور باریاں لیں۔ عوام کے پاس تیسرا کوئی آپشن تھا ہی نہیں اس لیے ان دو جماعتوں نے اس ملک کو جاگیر اور عوام کو رعایا سمجھ کر باری باری حکمرانی کی۔ ہردونوں جماعتوں نے حکمران پارٹی سے اقتدار چھیننے کیلئے ہرحربہ استعمال کیا۔ تاہم اپنے درمیان کسی تیسری جماعت کو مدمقابل کھڑے ہونے  کا موقع نہ دیا۔ عمران خان نے تحریک انصاف کے نام سے جماعت بنائی تو اس وقت ان دو بڑی جماعتوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ کسی روز یہ جماعت ان سے ان کا اقتدار چھین لے گی۔ 
شریف خاندان اور زرداری خاندان ( میں یہاں بھٹو خاندان قصدا" نہیں لکھ رہا کیونکہ بھٹو اور ان کے بیٹے میرمرتضیٰ بھٹو کی موت کے بعد عملی طور پر پاکستانی سیاست سے اس خاندان کا نام مٹ گیا تھا اور اب جو لوگ صرف عوامی ہمدردی کیلئے اپنے نام کے ساتھ بھٹو لگاتے ہیں وہ بھٹونہیں بلکہ زرداری خاندان کے ہیں خواہ بینظیر ہو، بلاول ہو یا پھر آصفہ یہ سب زرداری خاندان کے لوگ ہیں بھٹو نہیں) نے اپنی تین تین چار چار باریوں کے دوران اپنی حکومتوں کو مضبوط کرنے اور اس ملک کے نظام کو اپنی مٹھی میں رکھنے کیلئے ناصرف ہر سرکاری دفتر اور عہدے پر اپنے بندے لا بٹھائے بلکہ غیر سرکاری اداروں میں بھی اپنے وفا اداروں کی فوج لاکر بٹھا دیا۔ پاکستان کے تمام سرکاری اداروں میں ناصرف اہم عہدوں پر بلکہ چپراسی تک ان دو خاندانوں کے وفاداروں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ آج جب عمران خان کی حکومت ان خاندانوں کی کرپشن پر ہاتھ ڈالتا ہے تو وہی وفادار لوگ کرپشن کے ثبوت غائب کردیتے ہیں۔ جہاں زیادہ معاملہ پھنس جاتا ہے تو وہاں پر عدالتوں میں بڑے بڑے منصبوں پر بیٹھے لوگوں کے ذریعے ریلیف لے لیا جاتا ہے۔ 
اس قدر چالوں سے بنائے گئے دو خاندانوں کی بادشاہت کوعمران خان نے ایک ہی جھٹکے میں ختم کردیا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ عمران خان ان دونوں خاندانوں اور ان کے گماشتہ نما اتحادیوں کی  سازشوں سے محفوظ رہتے۔ 
ان دونوں خاندانوں نے عمران خان کاراستہ روکنے اور اسے ناکام ثابت کرکے عوام کے دل سے نکالنے کیلئے اپنے تمام تر حربے استعمال کرڈالے عدالتی منصبوں پر بیٹھے اپنے وفادارلوگوں سے لیکر بیوروکریسی تک اور ہر سرکاری محکمے میں بیٹھےاپنے ہی ہاتھوں لگائے افسر سے لیکر چپراسی تک کو عمران خان کو ناکام حکمران ثابت کرنے پر لگا دیا۔ اب ہوتا یہ ہےکہ عمران خان کوئی حکم دے بیوروکریسی اس پر عملی اقدامات کی بجائے ناصرف کاغذی کارروائیاں ڈالتی ہے بلکہ اس حکم کو الٹا کر عوام پر مصیبت نازل کردیتی ہے اور سب اچھا کی رپورٹ عمران خان کی ٹیبل پر پہنچا دی جاتی ہے۔ اگر کہیں واقعی کوئی کارروائی ہو بھی جائے تو عدالتوں میں بیٹھے مہان ہستیاں ان لٹیروں کو کسی نا کسی طرح ریلیف دے دیتی ہیں۔ 
عمران خان کی حکومت نے گراس روٹ لیول پر عوام کو ریلیف دینے کیلئے صحت کارڈ، نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم، احساس پروگرام ، کامیاب پاکستان، کامیاب نوجوان، ہنر مند نوجوان سمیت بے شمار بہترین منصوبے شروع کیے لیکن ہر جگہ پر موجود کرپٹ مافیا ان سب کا فائدہ عوام تک پہنچنے ہی نہیں دے رہا۔ اس وقت مخالف جماعتیں ہر ممکن کوشش میں ہیں کہ مہنگائی کی شرح روزبروز بڑھتی ہی جائے کم نہ ہو تاکہ عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ 
 بیوروکریسی سب کچھ جان بوجھ کر اپنے کرپٹ آقاؤں کی تسکین کیلئے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کیخلاف کارروائی نہیں کرتی جس سے ناصرف مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ضروریات زندگی کی اشیاء کی قلت بھی پیدا ہوجاتی ہے جس سے عوام حکومت سے متنفر ہورہی ہے۔ 
اپوزیشن کی حلیف بیورو کریسی اور عمران خان مخالف قوتوں کے گٹھ جوڑ کے اثرات خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں سامنے آ چکے ہیں۔ مہنگائی کی ستائی عوام نے پی ٹی آئی حکومت کی پالیسیوں کو مسترد کردیا۔ جس سے دیگر اپوزیشن جماعتوں کو بالعموم جبکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو بالخصوص بہت حوصلہ ملا۔ اگر حالات میں بہتری نہیں لائی گئی  مستقبل قریب میں کوئی بہتری نظر بھی نہیں آرہی تو ایسے میں چند ماہ بعد پنجاب میں متوقع بلدیاتی انتخابات کا نتیجہ پی ٹی آئی حکومت کیلئے خیبر پختونخوا سے  کہیں زیادہ خطرناک ہوگاجو برسراقتدار پارٹی کیلئے کوئی اچھا شگون نہیں۔ 
دوسری جانب پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی حکمران جماعت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے بھرپور تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں آصف علی زرداری نے لاہور میں خیمہ لگا کر پڑاؤ ڈالنے کا اعلان کیا تو دوسری جانب ن لیگ اپنے بکھرے ہوئے لوگوں کو دوبارہ اکٹھا کرنے اور ورکروں کا جوش و جذبہ بڑھانے کیلئے نواز شریف کے وطن واپسی کا کارڈ کھیلنے کی کوششوں میں ہے۔ عین ممکن ہے کہ نواز شریف واپس آ بھی جائیں کیونکہ برطانیہ نے ان کا ویزہ بڑھانے سے انکار کردیا اور اگر اپیل کا فیصلہ ان کے حق میں نہیں آتا تو پھر جنوری کے دوسرے یا تیسرے ہفتے تک میاں نواز شریف کو برطانیہ سے نکلنا ہی پڑے گا لیکن ن لیگ اس معاملے کوگھما پھرا کر اپنے حق میں استعمال کرنے کا منصوبہ بنا چکی ہے اس لیے ابھی سے وہ میاں نوازشریف کی وطن واپسی اور اگلے چند مہینوں میں کچھ بڑی تبدیلی کی خبریں چلوائی جا رہی ہیں۔ اس سب میں ایک بات تو طے ہے کہ میاں نواز شریف خواہ خود واپس آئیں ( جو سزائیں ختم کروانے تک تو ممکن دکھائی نہیں دیتا) یا پھر برطانوی حکومت انہیں ڈی پی پورٹ کرکے پاکستان بھیج دے پی ٹی آئی حکومت کی مشکلات میں اضافہ دونوں صورتوں میں ہوجائے گا۔ کیونکہ عوام کی ایک معقول تعداد کے علاوہ عدالتوں میں اور بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ میں ان کے ہمدردوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو تمام تر مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود میاں نوازشریف کو ریلیف دینے سے نہیں کترائیں گے۔ بلکہ حکومتی پارٹی کیلئے مزید مشکلات میں اضافہ ہی کرینگے۔ تاہم گزشتہ کچھ دنوں سے ن لیگ اور دیگر اپوزشیشن پارٹیوں کی جانب سے یہ تاثر کہ عمران خان کے خلاف ان کی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ڈیل ہو گئی ہے تو یہ فی الوقت صرف اور صرف پروپیگنڈا کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے واضح کہا گیا کہ آصف زرداری یا کسی اور پارٹی سے اگر ان کے کسی بندے کوئی ملاقات کی ہے تو اس کا نام بتایا جائے۔ ان حالات میں اب عمران خان کی حکومت کے پاس اپنی ساکھ بچانے کے صرف دو ہی راستے ہیں ایک یہ کہ کسی بھی طرح کرکے مہنگائی کے جن کو قابو کرے اور لوگوں کو سستی اشیاء کی فراہمی سہل کردے جو اب تک کے اقدامات اور بیورو کریسی کے رویے سے ممکن ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ صوبہ پنجاب کو بلدیاتی انتخابات سے قبل انتظامی طور پر دو یا تین صوبوں میں تقسیم کردے جنوبی پنجاب صوبے کا وعدہ پورا کرنے پر وہاں کی عوام سب دکھ بھول کر پی ٹی آئی کے گن گائے گی اور پنجاب کے سنٹرل اور اپرحصوں میں مزید تقسیم سے پی ٹی آئی کی حریف جماعتیں خاص طور پر ن لیگ کمزور ہوجائے گی اپر پنجاب میں ق لیگ اور دیگر جماعتیں اکثریت میں آ جائینگی اور پی ٹی آئی سے الگ صوبہ ملنے کی وجہ سے پنگا نہیں لیں گی جبکہ سنٹرل پنجاب میں اکثریت اور صوبائی حکومت بنانے کے باوجود مجموعی طور پر کم سیٹوں کی وجہ سے ن لیگ پی ٹی آئی کو مرکز میں حکومت بنانے سے روکنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوگی۔ اور یوں پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کے پی اور سندھ سے اتنی سیٹیں لینے میں کامیاب ہوجائے گی کہ اگلی حکومت بنا سکے اور دو سے تین صوبوں میں اپنی یا الگ یا ایک آدھ صوبے میں اشتراکی حکومت بھی بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ 
ابھی اس وقت جس تیزی سے حالات بدل رہے ہیں ان حالات میں پی ٹی آئی حکومت کیلئے مہنگائی اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبی عوام کا اعتماد بحال کرنا بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ جنوری، فروری کے مہینے میں پاکستانی سیاست اور ملکی حالات انتہائی حساس ہو جائینگے۔ اب تک پی ٹی آئی کے ہاتھ عوام سے اپنے لیے ہمدردی لینے کیلئے کچھ بھی پاس نہیں ہے۔ اس وقت تیس فیصد سے زائد پی ٹی آئی کے کارکن خود اپنی پارٹی سے مایوس ہو چکے ہیں۔ آنیوالے وقتوں میں دیکھا جائے گا کہ عمران خان جو ایک مضبوط اعصاب کے مالک کھلاڑی اور لیڈر ہیں اپنی پارٹی کے کم بیک کیلئے کیا فیصلے اور اقدامات کرتے ہیں۔ فی الوقت حکومتی ترجمانوں کے بیانوں سے پی ٹی آئی کے سر پر منڈلانے والے خطروں کے بادل چھٹتے ہرگز دکھائی نہیں دیتے۔ بلکہ یہ عمران خان سمیت پوری پارٹی کو گمراہ کرکے تباہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔