پاکستانی میڈیا پر اس چیز کو لے کر بہت پروپیگنڈا کیا گیا۔ اور عمران خان کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی گٸی۔ اس پر بلآخر عمران خان کو خود میدان میں آنا پڑا۔ اور انہوں نے ٹویٹر پر اس پروپیگنڈا کا جواب دیتے ہوٸے لکھا کہ حکومتی جے آٸی ٹی کو انہوں نے سارے سوالوں کا جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا میں وزیرآباد حملے سے متعلق ویڈیو بیانات کو قبول کرتا ہوں تو میں نے ان ویڈیو بیانات کو قبول کیا۔ پھر مجھے کہا گیا کہ آپ جو الزامات لگا رہے ہیں اس بارے ثبوت دیں۔ تو اس پر میں نے کہا کہ مجھ پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی ایف آٸی آر درج نہیں ہونے دی گٸی اور وقوعہ کے بعد تین تین لوگوں نے ( شہباز شریف، رانا ثنإاللہ اور فیصل نصیر ) نے پلاننگ کے ساتھ چیزوں کو کوراپ کیا۔ جب میری مرضی کے مطابق ایف آٸی آر درج نہیں ہونے دی گٸی تو پھر ثبوت میں آپ کو کیسے دے سکتا ہوں۔ ہاں البتہ جب کبھی کوٸی عدالتی کمیشن بنا جو ایمانداری سے اس واقعے کی تحقیقات کرے تو اس کو ثبوت بھی دونگا۔
قارٸین ! یہاں پر کچھ چیزیں ہیں جو اس جے آٸی ٹی کو مشکوک بناتی ہیں۔ اول تو یہ کہ اس جےآٸی ٹی میں تمام لوگ حکومت کی اپنی مرضی کے شامل کیے گٸے ہیں اور ان سب کو ن لیگ کے قریب خیال کیا جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جے آٸی ٹی کی تمام تر کاررواٸی خفیہ ہوتی ہے اور نتاٸج تک یہ سب چیزیں صرف متعلقہ افسران کے درمیان ہی رہتی ہیں انہیں لیک نہیں کیا جاتا لیکن اس جے آٸی ٹی کی کاررواٸی اس ہی کے ایک افسر نے چند صحافیوں کو لیک کردی۔ جس کے بعد شکوک و شہبات میں اضافہ ہوگیا اور جے آٸی ٹی کی جانبداری بھی عیاں ہوگٸی۔ کیونکہ کاررواٸی لیک کرکے عمران خان کے سیاسی مخالفین کو براہ راست فاٸدہ پہنچانے کی دانستہ کوشش کی گٸی۔ تو ایسے میں یہ جے آٸی ٹی درست رپورٹ کیسے پیش کرسکتی ہے۔ آخری بات کہ عمران خان جن لوگوں کو خود پر حملے کا ذمہ دار قرار دیتا ہے ان ہی کے لوگوں کو اس جے آٸی ٹی میں شامل کیا گیا تو کیا گارنٹی ہے کہ عمران خان جو ثبوت انہیں فراہم کریں وہ محفوظ رہے گا۔ جبکہ اس سے پہلے اس واقعے کے ثبوت مٹانے کی کوشش بھی کی جاچکی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کے پاس بہت ٹھوس ثبوت موجود ہیں جن کی وجہ سے الزام علیہ بہت پریشان ہیں۔ اور وہ ان ثبوتوں کو کسی طرح حاصل کرکے مٹانا چاہتے ہیں۔ تاہم فی الوقت تو عمران خان ان سب کے گلے کی وہ ہڈی بن چکے ہیں جسے نہ تو یہ نگل پارہے ہیں اور نہ نکال پا رہے ہیں۔