Add 1

Sunday, June 11, 2023

سرکاری ملازمین سے ہاتھ ہوگیا، اتنا بڑا دھوکہ کہ جان کر حیران ہوجاٸیں۔

پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کی طرف سے اپنے دور اقتدار کا دوسرا بجٹ پیش کیا گیا۔ حکومت کے وزرإ اور ترجمان اس بجٹ کو عوامی بجٹ قرار دے رہے ہیں تاہم معاشی ماہرین نے تمام حکومتی اعداوشمار کا آپریشن کرکے رکھ دیا ہے اور اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے۔ جبکہ عوام نے تو اس بجٹ کو خالص انتخابی پینتروں کا بجٹ قرار دے کر یکسر مسترد کردیا ہے۔ کیونکہ بجٹ میں جو اعدادوشمار بیان کیے گٸے آن گراٶنڈ حالات ان سے بالکل ہی برعکس ہیں۔ الٹا متعدد اشیإ پر ٹیکس کی شرح بڑھا کر عوام کو مزید مہنگاٸی، بے روزگاری اور معاشی الجھنوں کے دلدل میں ڈال دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر گھی کی قیمت کم کرنے کیلٸے اس کے خام مال پر ٹیکس کم کیا گیا لیکن جنرل سیلز ٹیکس بڑھا کر اس فرق کو برابر کردیا گیا۔ پھر سپر ٹیکس کا نفاذ کرکے اشیإ ضروری کی قیمتوں کو بڑھا دیا گیا۔ کیونکہ سرمایہ دار کبھی بھی اپنی جیب سے کوٸی ٹیکس نہیں دیتا بلکہ وہ کوٸی بھی ٹیکس عوام سے وصول کرتا ہے اور پھر ادا کرتا ہے۔ اس پر پانچ فیصد ٹیکس اگر نافذ ہوتا ہے تو وہ پندرہ فیصد اپنی مصنوعات کی قیمت بڑھا دیتا ہے۔ اور یوں سارا بوجھ عوام ہی کو سہنا پڑتا ہے۔ خیر ہمارا موضوع بجٹ  نہیں تھا بلکہ اس بجٹ سے بھی پہلے اس حکومت نے سرکاری ملازمین کے ساتھ جو دھوکہ کیا ہے اس کو سامنے لانا ہے۔ ہوا کچھ یوں ہے کہ حکومت نے بجٹ میں مختلف گریڈ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایڈہاک بیس پر تیس سے پنتیس فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے۔ جسے سن کر سرکاری ملازمین بہت خوش دکھاٸی دے رہے ہیں لیکن ان کے ساتھ ایک بہت بڑا فراڈ کیا گیا اور انہیں بڑی خاموشی اور چالاکی سے لاکھوں روپے کا ٹیکہ لگا دیا گیا۔ اس کا احساس انہیں اس وقت ہوگا جب وہ ریٹاٸرمنٹ کو پہنچیں گے۔ شہباز شریف حکومت نے دو اقسام کے نوٹیفکیشن جاری کیے جو یکم جون سے نافذ العمل ہوچکے ہیں۔ پہلا نوٹیفکیشن لیو انکیشمنٹ (Leave incashment) سے متعلق ہے۔ اس میں پہلے ہوتا یہ تھا کہ جب کوٸی سرکاری ملازم ریٹاٸر ہوتا تو اسے اس کی آخری تنخواہ کے مطابق بارہ ماہ کی تنخواہ یکمشت ادا کردی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر اگر کسی ملازم کی تنخواہ ریٹاٸرمنٹ کے وقت ایک لاکھ روپے تھی تو اسے لیو انکیشمنٹ کی مد میں بارہ لاکھ روپے ملتے تھے۔ لیکن یکم جون سے حکومت نٕے اس رقم کو آخری پے سلپ کی بجاٸے اس گریڈ کے ابتداٸی بنیادی تنخواہ سے جوڑ دیا۔ یعنی ایک لاکھ تنخواہ والے ملازم کے گریڈ کی ابتداٸی بنیادی تنخواہ تیس ہزار ہے تو ریٹاٸرمنٹ کے وقت اس کو لیو انکیشمنٹ کی رقم بارہ لاکھ کی بجاٸے فقط تین لاکھ ساٹھ ہزار روپے ملینگے۔ اسی طرح ہر سرکاری ملازم کی ایک کمیوٹ کی رقم جمع ہوتی رہتی ہے جو اسے ریٹاٸرمنٹ کے وقت یکمشت دی جاتی ہے۔ اس رقم کو کیوٹیشن کہتے ہیں اور اس کی شرخ پینتیس فیصد تھی۔ اس کو اب کم کرکے پچیس فیصد کیا جارہا ہے۔ بظاہر تو یہ فقط دس فیصد کمی ہے لیکن اگر اس کو بیس پچیس سال کی سروس کا حساب سے دیکھا جاٸے تو یہ رقم لاکھوں روپے کا ڈاکہ بنتا ہے۔ حکومت نے ایک طرف اتنا بڑا دھوکا کیا اور اپنی اس حرکت کو چھپانے کیلٸے ایڈہاک بیس پر اضافہ کردیا۔ یوں سرکاری ملازم فی الوقت بہت خوش ہیں لیکن جب انہیں اس چالاکی کی خبر ہوگی تو تب ان کے پاس سواٸے افسوس کے کوٸی دوسرا راستہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ البتہ اگر سرکاری ملازم ابھی سے یہ نوٹیفکیشن واپس کروا لیں اور اپنے حق پر اس ڈاکے کا راستہ روک لیں تو پھر مستقبل میں پریشانی سے بچ سکتے ہیں۔