
This Blog is officially being supervise and administrating by Weeky Hamara Maqsad Multan ( A project of Rindaan Media Group Pakistan). Weekly HAMARA MAQSAD Multan is a one of Pakistan's especially south Punjab based news paper , which being publish under the editorial of well known and energetic Journalist Saeed Ahmad Mazari, Hamara Maqsad Multan has slogan of Hamara Maqsad Pakisatan which means that Pakistan' solidarity, Honour and its cultural over view stands first in all rspects.
Add 1
Wednesday, July 31, 2024
Important Transfer and Posting expected in Pak- Army' Key posts. پاک فوج کے اعلیٰ عہدوں پر اہم تبدیلیوں کا امکان۔
اسلام آباد(ہمارا مقصد) افواج پاکستان میں اہم تبدیلیوں کا امکان، انتہائی اہمیت کے حامل کئی شعبوں کے افسران کے تقرر وتبادلے متوقع ہیں، "ہمارامقصد" کے ذرائع کے مطابق میجر جنرل کامران تبریز کو ڈی جی آئی ایس پی آر تیعنات کیے جانے کا امکان ہے، جبکہ میجر جنرل اسد کو زیراعظم آفس میں ایس آئی ایف سی کے امور کیلئے تعینات کیا جارہا ہے، اسی طرح میجر جنرل رانا عرفان شکیل رامے کو آئی ایس آئی میں بطور ڈی جی (بی) تعینات کیا جائے گا، 114 بریگیڈ کے سابق کمانڈر میجر جنرل عابد کو آئی جی ایف سی نارتھ لگائے جانے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے، جبکہ ان کے پیش رو آئی جی ایف سی نارتھ میجر جنرل چوہدری عامر اجمل کو وی سی جی ایس ( اے ) ٹرانسفر کیا جائے گا، میجر جنرل جولیان کو جی او سی 3 اےڈی ڈویژن لگائے جانے کا امکان ہے، اسی طرح میجر جنرل وسیم چیمہ اوکاڑہ کے گی او سی تیعنات ہونگے، حیدر آباد میں بھی میجر جنرل محمد عمران خان بابر کو بطور گی او سی لگائے جانے کا امکان ہے، نیجر جنرل سید رضوان ڈی جی آئی اینڈ ای جبکہ میجر جنرل امدادکو ڈی جی ڈبلیو اینڈ آر تعینات کیے جانے کا امکان ہے۔
Monday, January 15, 2024
ووٹ کو عزت دو،خدمت کو ووٹ دو،ن لیگ کا نعرہ ،،،،،،، ن لیگ کا انتخابی منشور سامنے آ گیا
ووٹ کو عزت دو،خدمت کو ووٹ دو،ن لیگ کا نعرہ ن لیگ کا انتخابی منشور سامنے آ گیا،مسلم لیگ ن کا منشور تیار،نیو نیوز نے منشور کے مسودے کی کاپی حاصل کر لی، مسلم لیگ (ن) کے منشور میں 2013-2018 کے دور حکومت اور مستقبل کے منصوبوں کا احاطہ کیا گیا ہے،ہمارا مقصد ن لیگ نے اپنی ترجیحات بتادیں، منشور کے سامنے لے آیا، منشور میں کہا گیا کہ طلبہ کو تعلیم اور مفت سفری سہولیات دیں گے، طلبہ کو فنی تعلیم کی سہولیات اور وظائف دئیے جائیں گے، نوجوانوں کو کاروبار کیلئے قرضے دئیے جائیں گے، ن لیگ کے منشور میں کہا گیا کہ ملک بھر میں5 ہزار ڈی ایچ کیوز کو اپ گریڈ کیا جائیگا،
ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولیات دی جائیں گی، ماں بچے کی سہولیات میں اضافے کیلئے پروگرام لایا جائےگا، ن لیگ کے منشور میں زرعی
اصلاحات کا ایجنڈا بھی دیا گیا ہے پارٹی کی جانب سے کہا گیا کہ منشور پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے ایک تجویز کردہ کونسل وقتاً فوقتاً جائزہ لے گی کونسل اقتدار سنبھالنے کے بعد وعدوں کی تکمیل پر پارٹی قیادت کو رپورٹ کرے گی۔ منشور عرفان صدیقی کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی نے تیار کیا ن لیگ آج یا کل باقاعدہ منشور کو جاری کر دے گی،زرائع
Thursday, January 11, 2024
ٹکٹیں ہی ٹکٹیں۔۔۔۔۔ سیاسی جماعتوں نے الیکشن 2024 کیلئے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ جاری کردیئے، کس کس کو کہاں کہاں سے ٹکٹ جاری ہوا تفصیل جاننے کیلئے لنک پر کلک کریں
(ہمارامقصد رپورٹ) ایم کیو ایم کی قومی ااسمبلی کے امیدواروں کی فہرست جاری ۔آسیہ اسحا ق این اے 232 ،جاوید حنیف این اے 233 سے امیدوار نامزد ۔این اے 234سے ابوبکر ۔ این اے 235سے اقبال محسود نامزد ۔این اے 236سے حسان صابر ، این اے 237سے رؤف صدیقی امیدوار ۔صادق افتخار این اے 238 ،ارشد ووہرہ این اے 240 ڈسٹرکٹ ساؤتھ کے امیدوار نامزد۔۔ڈاکٹر فاروق ستار این اے 241 ،مصطفٰی کمال این اے 242 سے نامزد۔۔ہمایوں عثمان این اے 243 ، ڈاکٹر فاروق ستار این اے 244 سے الیکشن لڑیں گے ۔حفیظ الدین این اے 245 ،امین الحق این اے 246 ڈسٹرکٹ ویسٹ کے امیدوار نامزد ہوگئے، ایم کیو ایم پاکستان کے ترجمان کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایاگ یا ہے کہ سینئر ڈپٹی کنونیئر مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار دو حلقوں سے الیکشن میں حصہ لینگے جبکہ ایم کیو ایم نے ملیر کی تین اور جنوبی کی ایک نشست پر اپنے امیدواروں کا اعلان نہیں کیا،،،
ایم کیو ایم نے کراچی کی قومی اسمبلی کی 22 نشستوں میں 18 پر امیدوار میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے،،، ترجمان متحدہ کے مطابق حتمی امیدواران کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقوں کیلئے ایم کیو ایم پاکستان کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیں گے،ضلع کورنگی کے حلقہ این اے 232 سے آسیہ اسحاق، حلقہ این اے 233 سے جاوید حنیف، ابو بکر، حلقہ این اے 234، اقبال محسود، حلقہ این اے 235 سے ایم کیو ایم کے امیدوار ہوں گے۔ ضلع شرقی میں حلقہ این اے 236 پر حسان صابر، حلقہ این اے 237 پر رؤف صدیقی، حلقہ این اے 238 پر صادق افتخار، حلقہ این اے 240 پر ارشد وہرہ متحدہ پاکستان کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے۔ضلع ساؤتھ کے حلقہ این اے 241 سے فاروق ستار، حلقہ این اے 242 سے مصطفیٰ کمال، این اے 243 ڈسٹرکٹ کیماڑی سے ہمایوں عثمان، حلقہ این اے 244 سے فاروق ستار، این اے 245 سے حفیظ الدین جبکہ حلقہ این اے 246 سے امین الحق اور حلقہ این اے 247 سے مصطفیٰ کمال ایم کیو ایم کے امیدوار ہوں گے۔ایم کیو ایم پاکستان کے کنونیئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی حلقہ این اے 248، حلقہ این اے 249 سے احمد سلیم صدیقی، این اے 250 سے فرحان چشتی ایم کیو ایم کے امیدوار ہوں گے۔ترجمان ایم کیو ایم نے کہا کہ بلدیہ ٹاؤن میں تاحال مسلم لیگ ن سمیت کسی بھی جماعت سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوئی ہے اور اس حلقے میں ایم کیو ایم کے امیدوار مصطفی کمال ہیں۔ایم کیو ایم نے ملیر سے قومی اسمبلی کی تین نشستوں حلقہ این اے 229، 230 اور 231 پر اپنے امیدواروں تاحال کھڑے نہیں کیے جبکہ ضلع جنوبی کی نشست جو لیاری کی این اے 239 پر بھی ایم کیو ایم نے اپنا امیدوار نہیں کھڑا کیا۔امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ آج ایم کیو ایم کی جانب سے صوبائی حلقوں کے حتمی امیدواروں کے ناموں کا بھی اعلان کردیا جائے گا ،،،
اسی طرح پیپلزپارٹی کی جانب سےزرداری خاندان میں سابق صدر آصف علی، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، فریال تالپور، عذرا پیچوہو اور علی حسن زرداری کو ٹکٹ جاری کیے گئے۔سکھر میں سید خورشید شاہ، ان کے بیٹے فرخ شاہ اور اویس قادر شاہ کو ٹکٹ ملا۔ خیرپور کے جیلانی خاندان کےسابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ، ان کی صاحبزادی نفیسہ شاہ اور بھتیجے جاوید شاہ کو ٹکٹ دیاگیا۔مٹیاری کے مخدوم خاندان سے مخدوم جمیل الزمان، محبوب الزماں اور مخدوم فخر الزمان کو ٹکٹ ملا۔۔ جامشورو میں ملک اسد سکندر اور ان کے بیٹے کو دو ٹکٹ جاری کیے گئے۔اسی طرح شکارپور میں غوث بخش کے دو بیٹوں کو ٹکٹ جاری کیے گئے۔ ادھرمسلم لیگ ن نے بھی اٹک، راولپنڈی اور چکوال اور دیگر اضلاع سے قومی اسمبلی کے ٹکٹ جاری کر دئیے۔
اٹک این اے سے شیخ آفتاب، این اے 50 ملک سہیل کمڑیال امیدوار ہوں گے۔این اے 51 راولپنڈی سے اسامہ سرور، 52 سے راجہ جاوید اخلاص، 53 سے قمر السلام، 54 خالی چھوڑ دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق آئی پی پی سے ایڈجسٹمنٹ ہوگی۔جبکہ این اے 55 سے ملک ابرار، 56 سے حنیف عباسی اور 57 سے دانیال تنویر کو ٹکٹ مل گئے۔چکوال این اے 58 میجر ظاہر اقبال اور 59 سے سردار غلام عباس ن لیگ کے امیدوار فائنلبمسلم لیگ ن نے فیصل آباد سے اپنے امیدوارں کا اعلان کر دیا
فیصل آباد این اے 95 سے آزاد علی تبسم ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی طرح فیصل آباد این اے 97 سے علی گوہر بلوچ کو مسلم لیگ ن نے ٹکٹ دے دیا۔فیصل آباد این اے 98 سے چوہدری شہباز بابر کو ٹکٹ دیا گیا۔ فیصل آباد این اے 99 سے میاں قاسم فاروق کو ٹکٹ دے دیا گیا۔ فیصل آباد این اے 100 سے رانا ثناءاللہ مسلم لیگ ن کے امیدوار ہوں گے
فیصل آباد این اے 104 سے راجہ ریاض مسلم لیگ ن کے امیدوار ہوں گے۔فیصل آباد این اے 101 سے میاں عبدالمنان کے بیٹے میاں عرفان کو ٹکٹ دے دیا گیا۔ فیصل آباد این اے 102 سے عابد شیر علی جبکہ این اے 103 سے حاجی اکرم انصاری کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ فیصل آباد۔ پی پی 99 میں شعیب ادریس ،پی پی 102 جعفر علی ہوچہ، پی پی 103 صفدر شاکر ، پی پی 104 عارف گل کو ٹکٹ جاری کیا گیا۔ فیصل آباد۔ پی پی 105 راؤ کاشف رحیم، پی پی 107 خالد پرویز گل، پی پی 108، محمد اجمل کو ن لیگ کا ٹکٹ جاری
فیصل آباد۔ پی پی 109 میں چوہدری ظفر اقبال ناگرہ ، پی پی 111 چوہدری فقیر حسین ،پی پی 113 علی عباس خاں کو ن لیگ کا ٹکٹ جاری ہوا۔
جبکہ شیخوپورہ ضلع میں بھی مسلم لیگ ن نے قومی 40 اور صوبائی 9 نشستوں پر امیدوار میدان میں اتار دیئے۔ این اے 113 کیلئے رانا احمد عتیق انور کو ٹکٹ جاری کیا گی۔ این اے 114 اور پی پی 139 سے رانا تنویر حسین میدان میں ہونگے، این اے 115 سے میاں جاوید لطیف کو ٹکٹ جاریکیا گیا۔ این اے 116 سے سردار عرفان ڈوگر امیدوار ہونگے۔ پی پی 136 سے حسان ریاض کو ن لیگ کا ٹکٹ جاری ہوا۔ پی پی 137 سے محمد ارشد ورک مسلم لیگ ن کے امیدوار ہونگے۔ پی پی 138 سے پیر اشرف رسول کو ن لیگ کا ٹکٹ جاری کیا گیا۔ پی پی 140سے میاں عبدالرف کو مسلم لیگ ن کے امیدوار ہونگے۔ پی پی 141 سے میاں جاوید لطیف کے بھائی میاں امجد لطیف کو ٹکٹ جاری، پی پی 142 کے لئے رانا محمود الحق مسلم لیگ ن کے امیدوار نامزد ہو گئے۔ پی پی 143 سے رانا ممتاز مون خان کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ مل گیا۔ پی پی 144سے سجاد حیدر گجر کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ جاری۔
ملتان میں بھی مسلم لیگ ن جنرل الیکشن 2024 کے لیے اپنے امیدوارں کا اعلان کردیا۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 148 سے احمد حسین ڈیہڑ ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو گئے ، قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 149 سے کسی امیدوار کا نام سامنے نا آسکا ، حلقہ این اے 149 سے آی پی پی اور ن لیگ میں سیٹ ایڈجسٹ منٹ ہونے کا امکان ، حلقہ این اے 149 پر آی پی پی کے سربراہ جہانگیر ترین امیدوار ہیں۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 150 سے بھی مسلم لیگ ن کے امیدوار کا نام سامنے نا آسکا ۔ قومی اسمبلی کے حلقہ 151 سے ملک عبدالغفار ڈوگر اور این اے 152 سید جاوید علی شاہ ، این اے 153 سےرانا محمود قاسم نون ٹکٹ لینے میں کامیاب ،صوبائ اسمبلی کے حلقہ 214 پر میاں شہزاد مقبول بھٹہ پی پی 215 پر شاہد محمود خان ،صوبائ اسمبلی کے حلقہ پی پی 220 پر سلمان نعیم ، پی پی 219 پر ڈاکٹر محمد اختر ملک ،صوبائ اسمبلی کے حلقہ پی پی 220 پر راۓ منصب علی ،پی پی 221 پر میاں طارق عبدللہ ، صوبائ اسمبلی کے حلقہ پی پی 222 پر رانا اعجاز احمد نون اور پی پی 223 پر مہدی عباس خان ن لیگ کا ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو گئے، پتوکی این 134 ایک ایم این اے اور 3 صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر مشتمل ہے۔ ن لیگ نے قومی اسمبلی کی این اے 134 کا ٹکٹ جاری کر دیا۔ حلقہ این اے 134 سے رانا حیات خاں امیدوار ہوں گے۔ صوبائی اسمبلی کی پہلی سیٹ پر حلقہ پی پی 182 سے چوہدری محمود انور کو ٹکٹ جاری کر دیا۔ صوبائی اسمبلی کی دوسری سیٹ پر حلقہ پی پی 183 میں رانا سکندر حیات خاں کو ٹکٹ جاری کر دیا گیا۔ صوبائی اسمبلی کی تیسری سیٹ پر حلقہ پی پی 184 میں رانا اقبال کو ٹکٹ جاری کر دیا۔ اسی طرح مسلم لیگ ن نےضلع اٹک کی دو قومی اور پانچ صوبائی نشستوں بھی کااعلان کردیا۔ این اے49 پرشیخ آفتاب احمد کو ٹکٹ جاری۔ این اے50 پر ملک سہیل کمڈیال کو ٹکٹ جاری۔ اٹک۔پی پی ون پر جہانگیرخانزادہ کو ٹکٹ مل گیا۔ اٹک۔پی پی ٹو پر افتخاراحمد خان کاٹکٹ کنفرم۔ اٹک۔پی۔پی تھری کاٹکٹ ملک حمیداکبرخان کومل گیا۔ اٹک۔پی پی فور پر چوہدری شیرعلی الیکشن لڑیں گے۔ اٹک۔پی۔پی فائیو کاٹکٹ ملک اعتبار خان کےنام رہا۔ خوشاب میں بھی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ جاری کردیئے گئے۔ مسلم لیگ ن نے ضلع خوشاب سے اپنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کر دئیے۔ حلقہ این اے 87 سے ملک شاکر بشیر اعوان کو ٹکٹ جاری۔ حلقہ پی پی 82 سے سابق صوبائی وزیر ملک محمد آصف بھا اعوان کو ٹکٹ جاری۔ حلقہ پی پی 83سے ملک معظم شیر کلو کو ٹکٹ جاری۔ حلقہ پی پی 84سے کرم الہیٰ بندیال کو ٹکٹ جاری کردیا گیا۔ جبکہ حلقہ این اے88 اور حلقہ پی پی 81پر استحکام پارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ بہاولپور ریجن سے بھی ن لیگ کے ٹکٹ ہولڈرز کا اعلان کردیا گیا ہے۔ جس کے مطابق بہاولنگر این اے 160 سے محمد عبدالغفار وٹو، این اے 161 سے عالم داد لالیکا، این اے 162 سے چوہدری احسان الحق باجوہ، این اے 163 سے نور الحسن تنویر چوہدری ، بہاولپور کے این اے 164 سے ریاض حسین پیرزادہ زادہ، این اے 165 سے تاحال کسی امیدوار کو ٹکٹ جاری نہیں کیا گیا ذرائع کے مطابق یہاں پر بھی استحکام پاکستان پارٹی یا پیپلز پارٹی سے ایڈجسٹمنٹ کا امکان ہے، جبکہ بہاولپور/ این اے 166 سے مخدوم سید سمیع الحسن گیلانی، این اے 167 سے محمد عثمان اویسی، این اے 168 سے ملک محمد اقبال چنڑ، اور رحیم یارخان /این اے 169 سے سید مبین احمد، این اے 170 سے شیخ فیاض الدین ، این اے 171 کو خالی چھوڑا گیا، رحیم یار خان ہی کے این اے 172 سے میاں امتیاز احمد، این اے 173 سے عزیر طارق، این اے 174 سے محمد اظہر خان لغاری کو پارٹی ٹکٹس جاری کیے گئے ہیں
Wednesday, January 10, 2024
پاکستان کی بڑی عدالت کا سب سے بڑا اور انوکھا فیصلہ، سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف ( مرحوم ) کی سزائے موت بحال کردی
پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان نے اب تک کا سب سے بڑا اور سب سے انوکھا فیصلہ سنا دیا، عدالت نے صابق صدر و صابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت کیخلاف اپیل پر ان کی وفات کے کئی ماہ بعد فیصلہ سنایا ہے، عدالت نے پرویز مشرف کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے درخواست نمٹا دی، سپریم کورٹ نے سابق فوجی امر پرویز مشرف کی سزائے موت بحال کر دی۔۔۔سپریم کورٹ نے سزائے موت کے خلاف اپیل خارج کردی۔۔عدالت نے ریمارکس میں کوشش کے باوجود مشرف کے قانونی ورثاء سے رابطہ نہ ہو سکا
Saturday, January 6, 2024
دورہ آسٹریلیا میں پاکستانی بیٹرز کا فلاپ شو، ٹیسٹ کرکٹ میں انتہائی ناقص کارکردگی
دورہ آسٹریلیا میں پاکستانی بیٹرز کا فلاپ شو۔۔ پاکستانی بیٹرز ناکامی سے دوچار رہے۔ کوئی بھی کھلاڑی سنچری اسکور نہ کرسکا۔بابر اعظم 6 اننگز میں 21 کی اوسط سے صرف 126 رنز اسکور کرسکے، سعود شکیل کو بھی مواقع ملے لیکن وہ بڑی اننگ کھیلنے میں ناکام رہے اور تین میچ میں انہوں نے صرف 92 رنز بنائے۔اوپنر عبداللہ شفیق بھی سڈنی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں بغیر کوئی رن بنائے پویلین لوٹ گئے، اوپنر بیٹر نے سیریز میں صرف 110 رنز بنائے۔
Friday, January 5, 2024
Chairman PTI Imran Khan's Article from Adiala Jail, He Warn about Pakistan' Economic and political Future.
Imran Khan warns that Pakistan’s election could be a farce
Writtenby Imran Khan ( Former PM of Pakistan )
His party is being unfairly muzzled, the former prime minister writes from prison
(Courtesy " The Economist ")
Jan 4th 2024
Today pakistan is being ruled by caretaker governments at both the federal level and provincial level. These administrations are constitutionally illegal because elections were not held within 90 days of parliamentary assemblies being dissolved.
The public is hearing that elections will supposedly be held on February 8th. But having been denied the same in two provinces, Punjab and Khyber Pakhtunkhwa, over the past year—despite a Supreme Court order last March that those votes should be held within three months—they are right to be sceptical about whether the national vote will take place.
The country’s election commission has been tainted by its bizarre actions. Not only has it defied the top court but it has also rejected my Pakistan Tehreek-e-Insaf (pti) party’s nominations for first-choice candidates, hindered the party’s internal elections and launched contempt cases against me and other pti leaders for simply criticising the commission.
Whether elections happen or not, the manner in which I and my party have been targeted since a farcical vote of no confidence in April 2022 has made one thing clear: the establishment—the army, security agencies and the civil bureaucracy—is not prepared to provide any playing field at all, let alone a level one, for pti.
It was, after all, the establishment that engineered our removal from government under pressure from America, which was becoming agitated with my push for an independent foreign policy and my refusal to provide bases for its armed forces. I was categorical that we would be a friend to all but would not be anyone’s proxy for wars. I did not come to this view lightly. It was shaped by the huge losses Pakistan had incurred collaborating with America’s “war on terror”, not least the 80,000 Pakistani lives lost.
In March 2022 an official from America’s State Department met Pakistan’s then ambassador in Washington, dc. After that meeting the ambassador sent a cipher message to my government. I later saw the message, via the then foreign minister, Shah Mahmood Qureshi, and it was subsequently read out in cabinet.
In view of what the cipher message said, I believe that the American official’s message was to the effect of: pull the plug on Imran Khan’s prime ministership through a vote of no confidence, or else. Within weeks our government was toppled and I discovered that Pakistan’s Chief of Army Staff, General Qamar Javed Bajwa, had, through the security agencies, been working on our allies and parliamentary backbenchers for several months to move against us.
People flocked onto the streets to protest against this regime change, and in the next few months pti won 28 out of 37 by-elections and held massive rallies across the country, sending a clear message as to where the public stood. These rallies attracted a level of female participation that we believe was unprecedented in Pakistan’s history. This unnerved the powers that had engineered our government’s removal.
To add to their panic, the administration that replaced us destroyed the economy, bringing about unprecedented inflation and a currency devaluation within 18 months. The contrast was clear for everyone to see: the pti government had not only saved Pakistan from bankruptcy but also won international praise for its handling of the covid-19 pandemic. In addition, despite a spike in commodity prices, we steered the economy to real gdp growth of 5.8% in 2021 and 6.1% in 2022.
Unfortunately, the establishment had decided I could not be allowed to return to power, so all means of removing me from the political landscape were used. There were two assassination attempts on my life. My party’s leaders, workers and social-media activists, along with supportive journalists, were abducted, incarcerated, tortured and pressured to leave pti. Many of them remain locked up, with new charges being thrown at them every time the courts give them bail or set them free. Worse, the current government has gone out of its way to terrorise and intimidate pti’s female leaders and workers in an effort to discourage women from participating in politics.
I face almost 200 legal cases and have been denied a normal trial in an open court. A false-flag operation on May 9th 2023—involving, among other things, arson at military installations falsely blamed on pti—led to several thousand arrests, abductions and criminal charges within 48 hours. The speed showed it was pre-planned.
This was followed by many of our leaders being tortured or their families threatened into giving press conferences and engineered television interviews to state that they were leaving the party. Some were compelled to join other, newly created political parties. Others were made to give false testimony against me under duress.
Despite all this, pti remains popular, with 66% support in a Pattan-Coalition 38 poll held in December; my personal approval rating is even higher. Now the election commission, desperate to deny the party the right to contest elections, is indulging in all manner of unlawful tricks. The courts seem to be losing credibility daily.
Meanwhile, a former prime minister with a conviction for corruption, Nawaz Sharif, has returned from Britain, where he was living as an absconder from Pakistani justice. In November a Pakistani court overturned the conviction.
It is my belief that Mr Sharif has struck a deal with the establishment whereby it will support his acquittal and throw its weight behind him in the upcoming elections. But so far the public has been unrelenting in its support for pti and its rejection of the “selected”.
It is under these circumstances that elections may be held on February 8th. All parties are being allowed to campaign freely except for pti. I remain incarcerated, in solitary confinement, on absurd charges that include treason. Those few of our party’s leaders who remain free and not underground are not allowed to hold even local worker conventions. Where pti workers manage to gather together they face brutal police action.
In this scenario, even if elections were held they would be a disaster and a farce, since pti is being denied its basic right to campaign. Such a joke of an election would only lead to further political instability. This, in turn, would further aggravate an already volatile economy.
The only viable way forward for Pakistan is fair and free elections, which would bring back political stability and rule of law, as well as ushering in desperately needed reforms by a democratic government with a popular mandate. There is no other way for Pakistan to disentangle itself from the crises confronting it. Unfortunately, with democracy under siege, we are heading in the opposite direction on all these fronts. ■
Imran Khan is the founder and former chairman of Pakistan Tehreek-e-Insaf and was prime minister of Pakistan from 2018 to 2022.
Editor’s note: Pakistan’s government and America’s State Department deny Mr Khan’s allegations of American interference in Pakistani politics. The government is prosecuting him under the Official Secrets Act.
( We " Weekly Hamara Maqsad Multan" are Thankful to "The Economics" for this Article)
عمران خان کے اکانومسٹ میں آرٹیکل کا اردو متن
گوگل سے ترجمہ کیا گیا
عمران خان نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے انتخابات ایک مذاق ہو سکتے ہیں
سابق وزیر اعظم جیل سے لکھتے ہیں کہ ان کی پارٹی کو غیر منصفانہ طور پر دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔
آج پاکستان میں وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر نگراں حکومتیں چل رہی ہیں۔ یہ انتظامیہ آئینی طور پر غیر قانونی ہیں کیونکہ پارلیمانی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 90 دنوں کے اندر انتخابات نہیں کرائے گئے تھے۔
عوام سن رہے ہیں کہ انتخابات 8 فروری کو ہونے والے ہیں۔ لیکن پچھلے ایک سال کے دوران دو صوبوں، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اس سے انکار کر دیا گیا- سپریم کورٹ کے گزشتہ مارچ کے حکم کے باوجود کہ یہ ووٹ تین ماہ کے اندر کرائے جائیں- وہ اس بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے میں حق بجانب ہیں کہ آیا قومی ووٹ کا اثر ہو گا۔
ملک کا الیکشن کمیشن اپنے عجیب و غریب اقدامات سے داغدار ہے۔ اس نے نہ صرف سپریم کورٹ کی توہین کی ہے بلکہ اس نے میری پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارٹی کی طرف سے پہلی پسند کے امیدواروں کے لیے نامزدگیوں کو بھی مسترد کر دیا ہے، پارٹی کے اندرونی انتخابات میں رکاوٹیں ڈالی ہیں اور محض تنقید کرنے پر میرے اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف توہین عدالت کے مقدمات چلائے ہیں۔
انتخابات ہوں یا نہ ہوں، اپریل 2022 میں عدم اعتماد کے مضحکہ خیز ووٹ کے بعد جس طرح مجھے اور میری پارٹی کو نشانہ بنایا گیا، اس سے ایک بات واضح ہو گئی ہے: اسٹیبلشمنٹ یعنی فوج، سیکیورٹی ایجنسیاں اور سول بیوروکریسی۔ پی ٹی آئی کے لیے کوئی بھی کھیل کا میدان فراہم کریں، ایک لیول ون کو چھوڑ دیں۔
آخر کار، یہ اسٹیبلشمنٹ ہی تھی جس نے امریکہ کے دباؤ کے تحت ہماری حکومت سے برطرفی کا کام کیا، جو ایک آزاد خارجہ پالیسی کے لیے میرے دباؤ اور اپنی مسلح افواج کو اڈے فراہم کرنے سے میرے انکار سے مشتعل ہو رہی تھی۔ میں واضح تھا کہ ہم سب کے دوست ہوں گے لیکن جنگوں کے لیے کسی کے پراکسی نہیں ہوں گے۔ میں ہلکے سے اس منظر پر نہیں آیا۔ اس کی تشکیل پاکستان کو امریکہ کی "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ہونے والے بھاری نقصانات سے ہوئی، کم از کم 80,000 پاکستانی جانیں
ضائع ہوئیں۔
مارچ 2022 میں امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار نے واشنگٹن ڈی سی میں پاکستان کے اس وقت کے سفیر سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد سفیر نے میری حکومت کو ایک سیفر پیغام بھیجا تھا۔ میں نے بعد میں اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ذریعے پیغام دیکھا اور بعد میں کابینہ میں پڑھ کر سنایا گیا۔
سائفر میسج میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کے پیش نظر، میں سمجھتا ہوں کہ امریکی اہلکار کا پیغام یہ تھا: عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عمران خان کی وزارت عظمیٰ پر پلگ کھینچو، ورنہ۔ چند ہفتوں کے اندر ہماری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور میں نے دریافت کیا کہ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، سیکورٹی ایجنسیوں کے ذریعے، ہمارے اتحادیوں اور پارلیمانی بیک بینچرز پر کئی مہینوں سے ہمارے خلاف کارروائی کر رہے تھے۔
حکومت کی اس تبدیلی کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور اگلے چند مہینوں میں پی ٹی آئی نے 37 میں سے 28 ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور ملک بھر میں زبردست ریلیاں نکالیں، جس سے یہ واضح پیغام گیا کہ عوام کہاں کھڑی ہے۔ ان ریلیوں نے خواتین کی شرکت کی اس سطح کو راغب کیا جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اس نے ان طاقتوں کو بے چین کر دیا جنہوں نے ہماری حکومت کو ہٹانے کا کام کیا تھا۔
ان کی گھبراہٹ میں اضافہ کرنے کے لیے، ہماری جگہ لینے والی انتظامیہ نے معیشت کو تباہ کر دیا، جس سے 18 ماہ کے اندر غیر معمولی افراط زر اور کرنسی کی قدر میں کمی واقع ہوئی۔ اس کا تضاد سب کے لیے واضح تھا: پی ٹی آئی حکومت نے نہ صرف پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا تھا بلکہ کوویڈ 19 وبائی مرض سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر تعریف بھی حاصل کی تھی۔ اس کے علاوہ، اجناس کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود، ہم نے معیشت کو 2021 میں 5.8 فیصد اور 2022 میں 6.1 فیصد کی حقیقی جی ڈی پی نمو کی طرف لے جایا۔
بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مجھے دوبارہ اقتدار میں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اس لیے مجھے سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کے تمام طریقے استعمال کیے گئے۔ میری زندگی پر دو قاتلانہ حملے ہوئے۔ میری پارٹی کے رہنماؤں، کارکنوں اور سوشل میڈیا کے کارکنوں کو، معاون صحافیوں کے ساتھ، اغوا کیا گیا، قید کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پی ٹی آئی چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ ان میں سے بہت سے لوگ بند رہتے ہیں، جب بھی عدالتیں انہیں ضمانت دیتی ہیں یا رہا کرتی ہیں تو ان پر نئے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت خواتین کو سیاست میں حصہ لینے سے روکنے کی کوشش میں پی ٹی آئی کی خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کو ڈرانے اور دھمکانے کے لیے اپنے راستے سے ہٹ گئی ہے۔
مجھے تقریباً 200 قانونی مقدمات کا سامنا ہے اور کھلی عدالت میں عام ٹرائل سے انکار کر دیا گیا ہے۔ 9 مئی 2023 کو ایک جھوٹے فلیگ آپریشن — جس میں دیگر چیزوں کے علاوہ، فوجی تنصیبات پر آتشزدگی کا الزام پی ٹی آئی پر لگایا گیا — جس کے نتیجے میں 48 گھنٹوں کے اندر کئی ہزار گرفتاریاں، اغوا اور مجرمانہ الزامات عائد کیے گئے۔ رفتار نے ظاہر کیا کہ یہ پہلے سے منصوبہ بند تھا۔
اس کے بعد ہمارے بہت سے رہنماؤں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا ان کے اہل خانہ کو پریس کانفرنسوں اور انجینئرڈ ٹیلی ویژن انٹرویوز میں یہ بتانے کی دھمکی دی گئی کہ وہ پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ کچھ کو دوسری، نئی بننے والی سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا۔ دوسروں کو مجبور کیا گیا کہ وہ میرے خلاف جھوٹی گواہی دیں۔
ان سب کے باوجود، پی ٹی آئی مقبول ہے، دسمبر میں ہونے والے پٹن-کولیشن 38 کے پول میں 66 فیصد حمایت کے ساتھ۔ میری ذاتی منظوری کی درجہ بندی اس سے بھی زیادہ ہے۔ اب الیکشن کمیشن پارٹی کو الیکشن لڑنے کے حق سے محروم کرنے کے لیے ہر طرح کی غیر قانونی چالوں میں ملوث ہے۔ عدالتیں روز بروز اپنا اعتبار کھوتی نظر آ رہی ہیں۔
دریں اثنا، کرپشن کے الزام میں سزا یافتہ سابق وزیر اعظم نواز شریف برطانیہ سے واپس آ گئے ہیں، جہاں وہ پاکستانی انصاف سے مفرور کی حیثیت سے رہ رہے تھے۔ نومبر میں ایک پاکستانی عدالت نے سزا کو کالعدم کر دیا۔
میرا یقین ہے کہ مسٹر شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت وہ ان کی بریت کی حمایت کرے گی اور آئندہ انتخابات میں اپنا وزن ان کے پیچھے ڈالے گی۔ لیکن اب تک عوام پی ٹی آئی کی حمایت اور اس کے "سلیکٹڈ" کو مسترد کرنے میں بے لگام رہی ہے۔
ان حالات میں 8 فروری کو انتخابات ہو سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے علاوہ تمام جماعتوں کو آزادانہ انتخابی مہم چلانے کی اجازت ہے۔ میں غداری کے مضحکہ خیز الزامات میں قید تنہائی میں قید رہتا ہوں۔ ہماری پارٹی کے وہ چند رہنما جو آزاد رہتے ہیں اور انڈر گراؤنڈ نہیں ہوتے، انہیں مقامی ورکرز کنونشن بھی منعقد کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ جہاں پی ٹی آئی کے کارکن اکٹھے ہونے میں کامیاب ہوتے ہیں انہیں پولیس کی وحشیانہ کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس منظر نامے میں، اگر انتخابات ہوئے بھی تو وہ ایک تباہی اور ایک مذاق ثابت ہوں گے، کیونکہ پی ٹی آئی کو انتخابی مہم چلانے کے اس کے بنیادی حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ الیکشن کا ایسا مذاق مزید سیاسی عدم استحکام کا باعث بنے گا۔ یہ، بدلے میں، پہلے سے غیر مستحکم معیشت کو مزید بڑھا دے گا۔
پاکستان کے لیے آگے بڑھنے کا واحد قابل عمل راستہ منصفانہ اور آزادانہ انتخابات ہیں، جو سیاسی استحکام اور قانون کی حکمرانی کو واپس لانے کے ساتھ ساتھ ایک مقبول مینڈیٹ والی جمہوری حکومت کی جانب سے اشد ضروری اصلاحات کا آغاز کریں گے۔ پاکستان کے پاس اپنے آپ کو درپیش بحرانوں سے چھٹکارا پانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے جمہوریت کا محاصرہ کرتے ہوئے ہم ان تمام محاذوں پر مخالف سمت میں جا رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق چیئرمین ہیں اور 2018 سے 2022 تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے
ایڈیٹر کا نوٹ: پاکستان کی حکومت اور امریکی محکمہ خارجہ مسٹر خان کے پاکستانی سیاست میں امریکی مداخلت کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ حکومت ان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلا رہی ہے۔
بشکریہ " دی اکانومسٹ "
Monday, June 19, 2023
ہمیں مقروض کیوں کہا؟ ہم نے تم سے کوٸی قرض نہیں لیا، پاکستانی شہریوں کا آٸی ایم ایف کو قانونی نوٹس۔۔
پاکستان کی حکومت گزشتہ ایک سال سے ہر طرح کی منت سماجت اور ہر شرط مان کر بھی تاحال آٸی ایم ایف کو قرض دینے پر راضی نہ کرسکی۔ دوسری جانب پاکستانی شہریوں نے آٸی ایم ایف کو باقاعدہ طورہ پر ایک قانونی نوٹس بھیج دیا ہے۔ یہ نوٹس ملکی تاریخ کا پہلا اور منفرد قانونی نوٹس ہے جو کسی بین الاقوامی ادارے کو پاکستان کے عام شہریوں نے بھیجا۔ قانونی نوٹس میں لکھا گیا کہ نوٹس میں مذکور افراد پاکستان کے معزز شہری ہیں اور کھیتی باڑی اور دیگر محنت مزدوری کرکے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ انہوں نے تمام عمر کسی سے قرض نہیں لیا۔ ٹی وی پر چلنے والی خبروں سے معلوم ہوا کہ آٸی ایم ایف کہتی ہے کہ پاکستانی قوم ان کے اربوں کھربوں ڈالر کی مقروض ہے اور اب پھر مزید قرض کی خواہاں ہے۔ نوٹس میں لکھا گیا کہ چونکہ ہم بھی پاکستانی قومیت کے حامل ہیں جو یہاں لگ بھگ ڈیڑھ سو سال سے آباد ہیں۔ ہم نے یا ہمارے کسی فرد نے آٸی ایم ایف سے نہ کبھی کوٸی قرض لیا نہ کبھی قرض کی کوٸی درخواست کی اور نہ ہی آٸندہ ایسا کوٸی ارادہ ہے۔ لہٰذا آٸی ایم ایف کا ہمیں مقروض کہنا صریحاً غلط ہے۔ نوٹس میں لکھا گیا کہ آٸی ایم ایف سے جس کسی نے بھی قرض لیا وہ اس نے ذاتی مفاد کیلٸے لیا اس قرض کا کوٸی حصہ نہ ہمیں ملا ہے نہ ہی ہم پر کسی طرح خرچ ہوا ہے۔ تو اس لیے ہم مذکورہ افراد کا اس طرح کے کسی قرض سے بطور پاکستانی شہری کوٸی واسطہ تعلق نہ ہے۔ آٸی ایم ایف کو چاہیے کہ جس کسی نے اسے قرض کی درخواست کی معاہدہ کیا اور قرض کو فاٸنل کیا یہ سارا قرض ان سے ہی وصول کیا جاٸے۔ اس قانونی نوٹس کے ملنے کے پندرہ یوم کے اندر آٸی ایم ایف سے قرض لینے والے پاکستانیوں کی مکمل فہرست فراہم کی جاٸے اور بتایا جاٸے کہ کس نے کس مقصد کیلٸے قرض لیا۔ چونکہ مذکورہ افراد نے آٸی ایم ایف سے نہ کوٸی قرض لیا نہ کوٸی معاہدہ کیا اس لیے انہیں آٸی ایم ایف قرض سے بری الذمہ سمجھا جاٸے۔ قرض کی تفصیل اندر مقررہ مدت فراہم نہ کرنے اور مذکورہ افراد کو مقروض قرار دینےکی صورت میں قانونی کاررواٸی عمل میں لاٸی جاٸے گی۔
آٸی ایم ایف کو بھیجا گیا یہ قانونی نوٹس پنجاب کے ضلع بہاولنگر کے شہریوں مسماة ستاں بی بی، رفیقاں بی بی، شکیل طالب، خلیل طالب، جلیل طالب ، عقیل طالب اور عدیل طالب وغیرہ نے اپنے وکیل طالب حسین جٹ میکن کی وساطت سے بھیجا۔
اس قانونی نوٹس میں باقاٸدہ طور پر ڈاٸریکٹر انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ( آٸی ایم ایف ) کو فریق بنایا گیا۔ یہ قانونی نوٹس ڈاٸریکٹر آٸی ایم ایف تک پہنچ پاتا ہے یا نہیں اور وہاں سے اس پر کوٸی خاطر خواہ جواب بھی آٸے گا یا نہیں یہ کہنا تو قبل ازوقت ہوگا۔ تاہم آٸی ایم ایف کو لکھے گٸے اس قانونی نوٹس سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ پاکستانی شہری حکمرانوں کی طرف سے عوامی بہبود کے نام پر قرض لے کر عیاشیاں کرنے اور اپنے اثاثے بنانے کے عمل سے تنگ آ چکے ہیں اور وہ اب کرپٹ حکمرانوں کی عیاشیوں اور کرپشن کا مزید بوجھ برداشت کرنے سے انکاری ہیں۔ دوسری جانب عالمی مالیاتی اداروں کیلٸے بھی یہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے کہ جو حکمران جس عوام اور قوم کے نام پر اربوں ڈالر کا قرض لے کر ان پر خرچ کرنے کی بجاٸے کرپشن کی نظر کردیتے ہیں جبکہ عام شہری اس قرض سے نہ تو مستفید ہوتا ہے اور نہ ہی اس کا کوٸی فاٸدہ ہورہا ہے تو ایسے میں وہ یہ قرض کیونکر چکاٸے گی۔ یہ تو فی الوقت ایک نوٹس ہے اگر اسی طرح ہر عام شہری کی طرف سے لیے گٸے اب تک کے تمام قرض سے بری الذمہ ہونے کا دعویٰ کیا گیا تو یہ عالمی مالیاتی ادارے کس سے قرض لیں گے۔ جن لوگوں نے قرض معاہدے کر رکھے ہیں ان کی اکثریت کے پاس دو دو تین تین ملکوں کی قومیتیں ہیں وہ پاکستانی قومیت چھوڑنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاٸیں گے۔ گو کہ فی الوقت یہ ایک مفروضہ ہی ہے تاہم ملک کی معاشی صورتحال عوام کی بدحالی مہنگاٸی بیروزگاری اور روز بروز کی بڑھتی غربت کی شرح کے سبب ایسا ہونا بھی خارج ازامکان نہیں۔
Sunday, June 18, 2023
پاکستان سے بیرون ملک انسانی اسمگلنگ، معروف صحافی صدیق جان نے نیا " کٹّا " کھول دیا۔۔۔
پاکستان سے انسانی اسمگلنگ کی خبریں نٸی تو نہیں ہیں۔ یہ دھندہ درحقیقت کٸی دہاٸیوں سے جاری ہے۔ مہنگاٸی، بدامنی اور بے روزگاری سے تنگ ہو کر ہر سال لاکھوں لوگ پاکستان سے بیرون ملک کا سفر کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد سفری اخراجات کی کمی، یا دستاویزی پیچیدگیوں کے سبب باقاعدہ قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کی بجاٸے غیرقانونی طریقے سے عمان ، یونان، ایران اور دیگر ممالک چلے جاتےہیں۔ اس کیلٸے یہ لوگ انسانی اسمگلروں کا سہارا لیتے ہیں جو انہیں بغیر کسی ویزے ورک پرمٹ یا قانونی دستاویز کے بیرون ملک لے جاکر چھوڑ دیتے ہیں جہاں یہ لوگ چھپا کر رہتے ہیں اور عام ورکروں کی نسبت کم اجرت پر کام کرتے اور ایک مخصوص عرصے کے بعد وہاں پر قانونی طور پر رہاٸش اختیار کرلیتے ہیں یا پھر واپس پاکستان آ جاتے ہیں۔ اسی طرح ہی چند روز قبل چار سو پاکستانیوں سمیت لگ بھگ دوہزار افراد پر مشتمل ایک بحری جہاز یونان جاتے ہوٸے سمندر میں الٹ گیا۔ جس کے نتیجے میں کم ازکم پندرہ سو افراد کے ڈوب جانے یا لاپتہ ہوجانے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ یونانی سمندری رضاکاروں نے اطلاع ملنے پر لگ بھگ تین سے ساڑھے تین سو لوگوں کو زندہ بچا لیا ہے اور لگ بھگ دو سو لاشیں بھی نکالی جا چکی ہیں۔ زندہ نکالے گٸے ان تارکین وطن میں سے اب تک فقط بارہ افراد کا تعلق پاکستان سے ہے۔ جبکہ پچاس سے زاٸد پاکستانیوں کی لاشیں بھی نکالی گٸی ہیں۔
افسوسناک واقعے پر پاکستان بھر میں عام طور پر جبکہ آزاد کشمیر میں خاص طور پر غم کے بادل چھاٸے ہوٸے ہیں آج آزاد کشمیر میں یوم سوگ منایا گیا جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے کل پاکستان بھر میں سوگ منانے اور پرچم سرنگو رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس واقعے کی تحقیقات کے بھی احکامات جاری کیے گٸے ہیں۔ دوسری جانب ایف آٸی اے حکام نے بتایا ہے کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹ کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس واقعے پر ہر آنکھ اشکبار ہے اور اس حوالے سے کٸی طرح باتیں سوشل میڈیا اور دیگر خبری ذریعوں پر زیرگردش ہیں۔ کچھ حلقے اس واقعے کو ملک میں آٸے روز بڑھتی بے روزگاری، مہنگاٸی کے سبب موجودہ حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے بھی دکھاٸی دیتے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے اسلام آباد کے معروف صحافی صدیق جان جو ایک نجی چینل کے بیورو چیف بھی ہیں نے اپنی ایک ٹویٹ میں وفاقی حکومت اور خاص طور پر وزیر داخلہ رانا ثنإ اللہ پر تنقید کرتے ہوٸے کہا کہ ان کی زیر نگرانی چلنے والا ادارہ ایف آٸی اے اب چھوٹے چھوٹے ایجنٹوں کو پکڑ کر لوگوں کو بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ انہوں نے انسانی اسمگلر پکڑ لیے ہیں۔ صدیق جان نےاتنا بڑا کام بڑے لوگوں کے ملوث ہوٸے بغیر نہیں ہوسکتا۔ سوال کیا کہ ایک ملک سے چارسو افراد کا ایک ہی جہاز کے ذریعے ایک جگہ اور ایک ہی راستے سے غیرقانونی طور پر بیرون ملک روانہ ہونا بغیر کسی بڑے سیاستدان، یا کسی طاقتور شخصیت اور خود ایف آٸی اے کے افسران کی ملی بھگت کے کیسے ممکن ہے ۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھاکہ کہ ایف آٸی اے چھوٹے ایجنٹوں کو پکڑ کر کارکردگی دکھانے کی کوشش کررہی ہے۔ اگر واقعی انسانی اسمگلروں کے خلاف کاررواٸی کرنی ہے تو اس سارے کھیل میں ملوث ایف آٸی اے افسران، سیاستدان اور دیگر طاقتور افراد کو پکڑ کر کٹہرے میں لاٸے۔ دورہرا معیار رکھ کر تو مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں ہوگی۔
کپتان سے ملاقات ناقابل معافی جرم، سپریم کورٹ کے معروف و مقبول وکیل مبینہ طور پر اغوا کرلیا گیا
آج کل ملک پاکستان جس کا آٸین اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام دیتی ہے میں نہ تو کہیں جمہوریت دکھاٸی دیتی ہے ار نہ ہی اسلام۔ بلکہ اگر درست کہا جاٸے ( ویسے درست کہنے کی بھی اجازت نہیں کیونکہ درست کہنے والا بھی آجکل غدار کہلوا رہا ہے ) تو اس خطہ زمین پر جہاں چوبیس کروڑ سے زیادہ عوام کا ایک ہجوم رہتا ہے کہیں کوٸی آٸین اور قانون نام کی کوٸی شٸے نہیں ہے بس جس کی لاٹھی اس کی بھینس وہ بھی چرواہے سمیت۔۔۔والا معاملہ ہے۔ ملک میں اس وقت عوام کے بنیادی انسانی حقوق ممل طور پر معطل کردیٸے گٸے ہیں۔ کسی کو بی بولنے لکھنے سننے حتیٰ کہ اپنی مرضی سے ملنے ملانے تک کی بھی اجازت نہیں ہے۔ حکومت اور مقتدر حلقوں نے اس وقت ہر اس گردن پر چھری رکھی ہوٸی ہے جو مآبدولت اشرافیہ سے متعلق کچھ بھی کہنے کی سکت رکھتا ہو۔ حکومت اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا گٹھ جوڑ کامیابی سے جبر کی تاریخ رقم کیے جارہا ہے۔ اپنی مخالفت میں نکلنے والی ہر آواز کو اب دبایا نہیں جا رہا بلکہ اسے اس صفحہ ہستی تک سے مٹایا جارہا ہے۔ اس وقت ملک میں ہر وہ فرد غدار ڈکلیٸر ہورہا ہے جو تحریک انصاف سے کسی بھی سطح پر وابستگی رکھتا ہے۔ وہ اس کے گھر والے بہن بھاٸی والدین یہاں تک کہ دور کے رشتہ دار تک بھی غیر محفوظ ہیں۔ عمران خان کی بات کرنا ان کا نام لینا ان کی تصویر دکھانا آج کل پاکستان میں غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ یہاں تک کہ عمران خان سے ملاقات کرنیوالوں کو خواہ ان کا کوٸی جرم نہ ہو تب بھی اغوا کرکے غاٸب کردیا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے معروف و مقبول وکیل لطیف کھوسہ کے گھر پر فاٸرنگ فقط اس لیے کی گٸی کہ انہوں نے آٸین اور قانون کی خلاف ورزیوں پر لب کشاٸی کی تھی۔ اسی طرح کا دوسرا واقعہ آج پیش آیا کہ سپریم کورٹ ہی کے ایک اور سینٸر ترین وکیل عذیر بھنڈاری کو فقط اس لیے مبینہ طور پر اغوا کرلیا گیا کہ انہوں نے چیٸرمین تحریک انصاف عمران خان سے ملاقات کی تھی۔ عذیر بھنڈاری کے مبینہ اغوا پر عمران خان نے ردعمل دیتے ہوٸے ٹویٹ کیا کہ " عزیر بھنڈاری ایڈوکیٹ کا شمار سپریم کورٹ کے معزز اور سینئر ترین وکلاء میں ہوتا ہے۔ فوجی عدالتوں، جن کیخلاف ہم عدالت سے رجوع کا ارادہ رکھتے ہیں، کے حوالے سے انہوں نے مجھ سے ملاقات کی۔
(مجھ سے ملاقات سے) واپسی پر انہیں ان کی جانب سے اغواء کر لیا گیا جن کا نام نہیں لیا جا سکتا کیونکہ وہ قانون سے بالاتر ہیں۔
ہم (ہر لحاظ سے) ایک مکمل مارشل لاء کی گرفت میں جکڑے جارہے ہیں۔
Subscribe to:
Posts (Atom)