عنوان: حضرت سخی رندان مزاری شہید تحریر: سعیدمزاری، تحقیق: ولی احمد دوستین مزاری
خداوندِبرحق نے تخلیقِ انسانیت کے بعد جو سب سے پہلا اور اہم کام کیا وہ انسانیت کیلئے رشدو ہداہت کا انتظام تھا، کیونکہ وہ ذات عظیم اس امر سے باخوبی واقف تھا کہ اس کی تخلیق کردہ اس حضرت انسان میں باربار بھٹک جانے اور سرکشی کرنے کی خصلت موجود ہے، اس لیے جب آدم کو دنیا میں بھیجا گیا تو اس کو دنیا میں رہنے کے کچھ اصول سمجھا دیئے گئے نظام کائینات کو رواں دواں رکھنے کیلئے اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس سرزمین میں خیر و شر کی کش مکش روز ازل سے تا ابد جاری رہے گی اللہ تعالیٰ نے انسانیتکی ہدایت کیلئے حضرت آدم سے نبی آخرزماں حضرت محمد ﷺ تک کمو بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءمبعوث فرمائے اور پھر یہ رشدوہدایت کا سلسلہ اہل بیت عظام کرام اور صحابہ کرام نے سنبھالا، اس کے بعد ہدایت کا یہ پاکیزہ سلسلہ اولیاءکرام کے ذریعے آج تک جاری و ساری ہے، اسی رشدوہدایت کے سلسلہ کی ایک کڑی حضرت سخی رندان ہیںخاندانی پس منظر
سخی رندان نسلاً بلوچ قوم کے معروف قبیلے شہہ مزاری سے تعلق رکھتے تھے، ان کا قبیلہ بھی باقی مزاری قبائل کی طرح وقت اور حالات کے پیش نظر بلوچستان سے ہجرت کر کے موجودہ دریائے سندھ کے کنارے واقع تحصیل روجھان میں آ کر آباد ہوگیا تھا۔ سخی رندان کے قبیلہ شہہ کو مزاری قبیلہ میں ایک معتبر مقام حاصل ہے۔ ایک روایت کے مطابق شہہ قبیلہ نسلاً عربی اور سید خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور یہ بنو امیہ اور بنو ہاشم خاندان سے ان کا شجرہ نصب بتایا جاتا ہے کہا جاتا ہے کہ جب خلفائے بنی امیہ اور بنو عباس ان کے در پر آزار ہوئے تو ا س خاندان نے جان بچا کر بلوچستان میں آکر پناہ لی یہاں پر اس قبیلے نے خود کو پہلے پہل کوج کہلوایا اور پھر یہ شہہ، کہیری اور نوزانی کہلوائے یہ لوگ یہاں آ کر بلوچوں میں گل مل گئے اور بلوچوں سے رشتہ داریاں کر کے بلوچوں کا ایک قبیلہ بن گئے، یہ لوگ ویسے تو بلوچوں کے تقریباً تمام قبائل میں موجود ہیں اور ان کی رشتہ داریاں بھی تقریباً تمام معتبر بلوچ قبائل سے ہیں اپنی درویشی کے سبب پورے بلوچ قوم میں ان کو تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تاہم مزاریوں میں ان کے قبیلے کو شہہ مزاری کہا جاتا ہے سخی رندان کے والد بھی اپنے وقت کے انتہائی سخی اور درویش بزرگ ہو گزرے ہیں ان کام لدو سخی تھا، ان کا مزار روجھان شہر اور ایک تاریخی علاقے کن کے درمیان ہے ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے سر پر پانی کے مشکیزے اٹھا اٹھا کر مسافروں کو پانی پلاتے تھے، اسی سبب سخی مشہور ہوئے ۔ ان کے بارے میں بقول حق نواز لعلانی مزاری روایت ہے کہ وہ حضرت غوث بہاو ¾الحق کے خانوادہ ِ غوثیہ کے مرید اور فیض یافتہ تھے۔اورلعل شہباز قلندر کے مزارپر چلہ کشی کے دوران ایک رات انہوں نے خواب میں ایک بزرگ کو دیکھا جنہوں نے ان سے کہا کہ تم کل صبح فلاں جگہ جاو ¾ وہاں پر تمہاری ملاقات ایک شخص سے ہو گی اوروہ تمہیں اپنی بیٹی کا رشتہ دے گاجس سے تمہیں ایک بیٹا پیدا ہوگا جو بہت نام کمائے گا۔ اگلی صبح رندان سخی کے والد لدو سخی وہاں سے واپس روجھان روانہ ہو گئے ، روجھان آ کر انہوں نے کوہ علی میروئی مزاری کی بیٹی سے نکاح کیا جہاں سے رندان سخی پیدا ہوئے ۔
رندان سخی مادر زاد اللہ کے ولی تھے ۔ ایک روز ان کی والدہ جو ان کو پنگوڑے میں سلا کر چھوڑ گیئں تھیں واپس آئیں تو دیکھا کہ بچے کی جگہ پنگوڑے میں ایک کالا ناگ بیٹھا ہوا ہے وہ ڈر گئیں اور جاکر رندان سخی کے والد لدو سخی کو ماجرہ سنایا انہوں نےجب آکر دیکھا تو وہ ناگ غائب ہو چکا تھا اور رندان اپنی اصل حالت میں پنگوڑے میں موجود تھا اس پر سخی رندان کی والدہ نے سوال کرنا چاہا لیکن لدو سخی نے ہاتھ کی انگلی کے اشارے سے منع کرتے ہوئے انہیں خاموش رہنے کا کہا۔ معروف موئرخ علامہ نذیرالحق دشتی اپنی کتاب ” بلوچ قوم اور اس کی معرکہ آرائیاں “ صفحہ 178 میں لکھتے ہیں کہ لدو سخی اور رندان سخی حد درجہ سخی تھے اور لوگ ان کی طرف بڑی بڑی کرامات مسوب کرتے ہیں ،اور ان کو مرتبہ ان کی سخاورت کی وجہ سے ملا، کیونکہ بلوچ معاشرے میں سخاوت کو بلند مرتبہ مقام حاصل ہے، ویسے یہ دونوں حضرات کسی باطنی سلسلہ کے کسی بزرگ کے فیض یاب تھے نہ اہل نسبت اور صاحب فیض و معرفت تھے، ما سوائے یہ کہ وہ سخی تھے، رندان سخی کو پٹی کا پہلوان بھی کہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں حضرات 1822 ءکے لگ بھگ ہو گذرے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے کوئی مستند حوالہ موجود نہیں۔البتہ ان کی وفات کے بارے میں روایت ہے کہ سردارڈپھل خان بگٹی کے دور عہد میں مزاری بگٹی جنگ میں شہید ہوئے۔سردار ڈپھل خان بگٹی اکبر خان بگٹی سے دس پشت پہلے بتائے جاتے ہیں اورموجودہ شہہ مقدم رسول بخش سے رندان سخی تک بھی نو پشت ہو گذرے ہیں ۔اوراس حساب سے قرین قیاس ہے کہ ان کا زمانہ سولہویں صدی کا زمانہ بنتا ہے۔
اس زمانے میں مزاری قبیلہ کے تین مشہور قبیلچے تھے جو مسیدانی، رستمانی اور سرگانی کے نام سے جانے جاتے تھے رستمانی قبیلے کے مقدم جو اس وقت بدل خان بنگیانی تھے جنہوں نے سخی رندان کے کرامات سے متاثر ہوکر اپنا دستارِ مقدمی سخی رندان کے حوالے کر دیا اور تب سے سخی رندان کا قبیلہ شہہ رستمانی قبیلے کا مقدم چلا آ رہا ہے جبکہ سخی رندان کی بزرگی کو باقی مزاری قبائل نے بھی تسلیم کیا ۔
حالات زندگی
سخی رندان کے حالات زندگی ایک عام بلوچ سے مختلف نہیں تھے، وہ ایک عام سے درویش قسم کے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی زندگی بھی انتہائی غربت و افلاس میں گذری، سخی رندان اس وقت ایک چرواہے کے طور پر ایک مزاری قبیلے سیالاف پاڑے کی بکریاں چراتے تھے کیوں کہ بھیڑ بکریاں چرانا روزاول ہی سے بلوچ قوم کا نسل درنسل کا پیشہ تھا اس پیشے کو ایک شاعر نے یوں بیان کیا ہے
پانہوالیِ گذران اَث پیش ئَ
وخت گوستہ گو ں بزئُ میش ئَ
یعنی روز اول ہی سے بلوچ کا پیشہ بھیڑ بکریاں پالنا اور ان کی زندگی کا بیشتر وقت انہی بھیڑ بکریوں میں ہی گذر تا ہے۔
سخی رندان کا زیادہ وقت درویشی ہی میں گذرا،انہوں نے کسی باقاعدہ سکول یا مدرسہ سے تعلیم تو حاصل نہیں کی کیونکہ اس زمانے میں بلوچوں میں اس طرح کا رجحان بھی نہیں پایا جاتا تھا تاہم ان کے والدین نے مقامی رسم ورواج اور کلچر کے مطابق ان کی بطور ایک اچھے انسان تربیت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، یہی وہ تربیت تھی جس نے انہیں انسانیت کے بلند مرتبے پر لا کھڑا کیا۔ انہوں نے مختلف ادوار میں قبائلی روایات کے مظابق مزاری قبیلہ کے دیگر اقوام سے ہونے والی لڑائیوں میں بھی حصہ لیاتاہم ان کے جنگی کارناموں سے متعلق قابل ذکر معلومات نہیں مل سکیں۔سخی رندان کے بارے مشہور ہے کہ وہ کمال درجے کے سخی تھے بطور چرواہا ان کو جو بکریاں مزدوری میں ملتی تھیں وہ اکثر انہیں مہمانوں کی خاطر مدارت کیلئے ذبح کر دیتے ، کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ خود بھوکارہ کر بھی مہمان کو کبھی بغیر کچھ کھلائے پلائے نہ جانے دیتے۔ ایک مرتبہ سخی رندان اپنی بھیڑ بکریاں چرا رہا تھاکہ اس بیابان میں چار درویش وہاں آ نکلے جو انتہائی بھوکے اور پیاسے تھے انہوں نے سخی رندان سے پانی اور کچھ کھانے کومانگا تو سخی رندان نے کہا کہ اس ریوڑ میں میرے حصے کا صرف ایک سرخ گوش بھیڑ ہے پھر انہوں نے اس بھیڑ کو سجی بنا کر ان درویشوں کو پیش کیا جس کو کھانے کے بعد ان چار درویشوں نے ان کے حق میں دعا کی جس کے بعد ان کے بھیڑ بکریوں میں بھی دن بدن اضافہ ہوتا رہا اور اور انہوں نے مزید زور و شور سے سخاوت شروع کر دی جس سے ان کی شہرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔
سخی رندان کی چند مشہور ترین کرامات
سخی رندان جب اپنے بھیڑ بکریوں کا ریوڑ لیکر پانی پلانے کیلئے جاتے تو پانی کا وہ چشمہ جس میں عام حالات میں پانی کم ہوتا تھا ان کے جانے کے بعد پانی بڑھ جاتا اور ان کی بکریاں سیر ہو کر پانی پیتیں ، سخی رندان کے زمانے میں بلوچ قبائل کے مابین لڑائی جھگڑے عام تھے ایک مرتبہ مزاری بگٹی قبیلہ میں لڑائی ہوتے ہوتے طویل ہو گئی اور رات پڑ جانے کے سبب دوست دشمن کی پہچان مشکل ہوگئی تو اس وقت سخی رندان نے معاملے کی سنگینی کو دیکھ کر اللہ سے دعا کی تو اندھیری رات دن کے اجالے کی مانند روشن ہو گئی اور مزاری قبیلے نے اس جنگ میں فتح حاصل کی یہ لڑائی چونکہ موجودہ روجھان کے علاقے پٹی میں لڑی گئی تھی اور وہاں یہ واقعہ رونما ہوا تو اس مناسبت سے سخی رندان کو پٹی کا پہلوان بھی کہا جاتا ہے۔ مقامی طور پر سخی رندان سے سینکڑوں کرامات منسوب ہیں ، تاہم ان کی سخاوت آج بھی جاری و ساری ہے ہر سال ہزاروں عقیدت مند انکے دربار پرآتے ہیں اور وہاں پر خیرات کرتے اور منتیں مانتے ہیں آج بھی ان کے دربار پر جانے والوں کیلئے ہر وقت لنگر دستیاب ہوتا ہے۔
شہادت کا واقعہ
سخی رندان کے زمانے میں مزاری بغتی قبائل کا جھگڑا چل رہا تھا ایک دن بگٹی قبائل کے چند لوگوں نے مزاری علاقے میں آ کر نیمن بھوآنی نامی سرگانی کے جانورلوٹ کر لے جانے لگے توجب اس کی اطلاع سخی رندان کو ئی تو وہ اپنے بیٹے مندو کو ساتھ لیکر بگٹیوں کے تعاقب میں نکل پڑے اوراور ان کا پیچھا کرتے ہوئے انہیں جا لیا اور بڑی جانفشانی سے لڑتے ہوئے اپنے بیٹے کے ہمراہ ہی شہید ہو گئے ۔ سخی رندان شہادت کے بعد اپنی وصیت کے مطابق جہاں ان کی شہادت ہوئی تھ وہاں دفن ہوئے یہ مقام روجھان شہر سے تقریباً تین میل بجانب جنوب مغرب کی طرف ہے اور آج بھی ان کا مزار اس جگہ موجود ہے۔
سخی رندان کا مزار مزاری قبیلے کے چیف میر بلخ شیر خان مزاری نے تعمیر کروایا اور کافی عرصہ تک مزار کے معاملات ان کے خاندان کے سپرد رہے چند سال قبل محکمہ اوقاف نے ان کے دربار کو اپنی تحویل میں لیا ہے اور اب دربار کے بیشتر معاملات محکمہ اوقاف ہی دیکھتا ہے تاہم ان کا خاندان ان کے درابار کے معاملات کا اصل نگران و ذمہ دار ہے۔ تاہم مزار سے متصل مسجد اور لنگر خانہ حاجی شاہ بخش جتوئی نے تیار کروایا۔ یہاں یہ بات واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ میڑ بلخ شیر خان مزاری ہر سال عیدین پر سب سے پہلے سخی رندان کے مزار پر حاضری دیتے ہیں اور وہاں لنگر تقسیم کرواتے ہیں پھر اس کے بعد وہ اپنے اجداد کے مقبروں جو روجھان کی قدیمی قبرستان ھندیراں جا کر حاضری دیتے ہیں۔
سخی رندان کا نسب نامہ
سخی رندان بن سخی لدو بن محمد بن رستم شہہ بنگیانی مزاری
اولاد
سخی رندان کے تین یٹے مندو،مظاہریا ایزلان، دلاور تھے، پھر مظاہر یا ایزلان سے ان کی نسل آگے بڑھی۔جو ان سے آگے بھورا، پھر بنگل، پھر جھانگی اس کے چار بیٹے تھے تھیغو،روزی، لعلن، پھیرن تھے لعلن کا بیٹا بھورا تھا اور اس کا بیٹا گل محمد تھا اور اس کا بیٹا موجودہ شہہ مقدم رسول بخش ہے ۔
عنوان: حضرت سخی رندان مزاری شہید تحریر: سعیدمزاری، تحقیق: ولی احمد دوستین مزاری
خداوندِبرحق نے تخلیقِ انسانیت کے بعد جو سب سے پہلا اور اہم کام کیا وہ انسانیت کیلئے رشدو ہداہت کا انتظام تھا، کیونکہ وہ ذات عظیم اس امر سے باخوبی واقف تھا کہ اس کی تخلیق کردہ اس حضرت انسان میں باربار بھٹک جانے اور سرکشی کرنے کی خصلت موجود ہے، اس لیے جب آدم کو دنیا میں بھیجا گیا تو اس کو دنیا میں رہنے کے کچھ اصول سمجھا دیئے گئے نظام کائینات کو رواں دواں رکھنے کیلئے اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس سرزمین میں خیر و شر کی کش مکش روز ازل سے تا ابد جاری رہے گی اللہ تعالیٰ نے انسانیتکی ہدایت کیلئے حضرت آدم سے نبی آخرزماں حضرت محمد ﷺ تک کمو بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءمبعوث فرمائے اور پھر یہ رشدوہدایت کا سلسلہ اہل بیت عظام کرام اور صحابہ کرام نے سنبھالا، اس کے بعد ہدایت کا یہ پاکیزہ سلسلہ اولیاءکرام کے ذریعے آج تک جاری و ساری ہے، اسی رشدوہدایت کے سلسلہ کی ایک کڑی حضرت سخی رندان ہیں
2 comments:
Very nice information
جھوٹ لکھا ہے ، کہیر ی سید الگ ہیں مزاری الگ کاسٹ ہے
Post a Comment