حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا مقصد اور محرم کا اصل پیغام
( تحریر: سعید مزاری)
کربلا میں جو ظلم اور سفاکی کی داستان رقم ہوئی وہ صرف تاریخ اسلام ہی نہیں بلکہ تاریخ انسانی کا سیاہ ترین باب ہے, حضرت امام حسین, ان کے اہل خانہ اور ساتھیوں پر یزیدی فوج نےجو مظالم ڈھائے ان پر جس قدر ماتم کیا جائے کم ہے, حضرت امام حسین نے عظیم ترین قربانی کسی منصب یا حکومت کے حصول کی خاطر نہیں دی بلکہ اپنے خون سے باطل اور حق کے درمیان تفریق کا خط کھینچ دیا, اور قیامت تک کی انسانیت پر واضح کر دیا کہ جو اس لکیر کے جس طرف ہوگا اسی کا ساتھی کہلائے گا, حضرت امام حسین کی شہادت حضرت امام حسن کی طرح ایک اٹل فیصلہ تھا اور یہ فیصلہ واقعہ کربلا سے کئی سال قبل نبیِ کریم صلٰواۃ السلام کی زندگی اور دونوں امامین کے بچپن ہی میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہی کیا تھا, حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کو سیدالشہداء کا خطاب بھی اس دن مل گیا تھا جب ان کیلئے عید کے کپڑے جنت سے جبریل لے کے آئے تھے, یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت امام حسین ,ان کے اہل خانہ اور ان کی لشکر کیلئے کربلا کا واقعہ کوئی انہونی بات نہیں تھی بلکہ بچپن سے اس آخیر عمر تک اللہ کی طرف سےحضرت امام حسین کی اس واقعہ کیلئے تربیت کا عمل جاری رہا, اس واقعے کے رونما ہونے کا یقین ہمارے نبیِ مکرم, حضرت علی کرم اللہ وجہہ, حیاءِ کامل حضرت فاطمہ سمیت اس وقت کے تمام اکابرین کو تھا, یہاں تک کہ حضرت امام حسین کو بھی معلوم تھا کہ کربلا میں یہ داستان رقم ہو گی, اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب سب کچھ معلوم تھا تو اس سے بچنے یا نمٹنے کیلئے کوئی قدم یا حیلہ کیوں نہ کیا گیا, دراصل اسی سوال ہی کے جواب میں وہ اصل وہ پیغام ہے جو حضرت امام حسین قیامت تک کی انسانیت کو دینا چاہتے تھے, جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ ایک اٹل فیصلہ تھا اس لیے اس سے کنارہ کشی ممکن ہی نہ تھی, دوسرے یہ کہ اس واقعے سے رہتی دنیا کو قدرت کا پیغام پہنچانا تھا کہ حق کو وقتی طور پر مصائب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن کبھی بھی باطل کو سربلندی نصیب نہیں ہو گی حق ہمیشہ قائم رہنے کیلئے ہے اور باطل نیست و نابود ہونے کیلئے آج حسین کے پیروکار کروڑوں اور اربوں میں ہیں جبکہ یزید کا کوئی نام لیوا تک موجود نہیں,
واقعہ کربلا اور شہادتِ خضرت امام حسین سے دوسراسبق جو ہمیں ملا ہے وہ یہ ہے کہ آپ جس سے واقعی محبت کادعوہ کرتے ہیں پھر صرف اس کی مانتے سنتے اور کرتے ہیں, حضرت امام حسین کو اللہ, اس کے نبی اور اس نبی کے لائے ہوئے دین سے محبت تھی, اس لیے انہوں اپنی اور اپنے اہل وعیال سمیت سینکڑوں جانثاروں کے جانوں کا نظرانہ دے کر بھی باطل کاراستہ اختیار نہ کیا بلکہ زندگی کے آخری لمحے کو بھی نبیِ کریم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اللہ کے حکم کی بجا آوری میں گزارا, جسم زخموں سے چُور تھا لیکن حکم خدا منظور تھا, گردن کٹوا دی لیکن نماز نہ چھوڑی, قافلہ لٹوا لیا لیکن باطل کے سامنے سر نہیں جھکایا, اپنے لہوسے ہمارے لیے پیغام لکھ چھوڑا کہ کچھ بھی ہو جائے حق کا ساتھ نہ چھوڑنا, جان چلی جائے لیکن خدا کا حکم نہ توڑنا, گردن کٹوا دینا پر کبھی جھوٹ کے سامنے گردن جھکا نہ دینا, اللہ کا فیصلہ اٹل ہے اور وہ ٹل نہیں سکتا اس لیے کبھی مصلحت کے فریب میں بھٹک نہ جانا,
آج ہم بڑے فخر سے مسلمان, نبی کریم کے پیروکار اور امام حسین کے حب دار ہونے کا دعوہ کرتے ہیں,یکم محرم سے دس محرم کی شام تک غمِ حسین میں نڈھال رہتے ہیں, ان پر یزیدی فوج کے مظالم کا دردناک انداز میں رونا روتے ہیں, حضرت امام حسین اور ان کے اہلبیت کے زخموں کو یاد کر کے اپنے جسموں کو چھلنی کرتے ہیں, یزیدی فوج کی سفاکی پر ماتم کرتے ہیں, اور ایسا کرنا کسی حد تک شاید ضروری بھی ہے کہ اس واقعے کی یاد تازہ رہے, لیکن اس سارے عمل میں ہم اس واقعے, اس عظیم قربانی کے اصل مقصد اور پیغام کو بھلا بیٹھتے ہیں, ہم نے غمِ حسین کو سینوں میں زندہ رکھا لیکن ان کی سنت کو بھلا دیا, ہم نے امام حسین کو پہنچنے والی تکالیف کو یاد رکھا لیکن انہوں نے یہ تکالیف جس دین کی سربلندی کیلئے سہی تھیں اس دین کو ہم نے عملا" پس پشت ڈال دیا, حق و سچ کی خاطر امام حسین نے جان دی ہم نے ذاتی مفادات کیلئے مصلحت سے کام لیا, انہوں نے اللہ کے حکم کے آگے سر کٹوا لیا اور ہم نے اللہ کا حکم ہی بھلا دیا, انہوں نے اپنا سب کچھ لٹوا کر امت کو بکھرنے سے بچایا اور ہم نے ان ہی کے نام پر امت کو فرقوں میں بانٹ لیا, انہوں نے سینکڑوں جانیں دے کر بھی کسی کو کافر نہیں کہا اور ہم اپنی پسند کا نعرہ لگانے یا نہ لگانے پر لوگوں کو کفر کے سرٹیفکیٹ دے رہے ہیں, انہوں نے آخری وقت بھی سجدہ نہیں چھوڑا اور ہم ایک فلم دیکھنے کیلئے نماز چھوڑ دیتے ہیں, انہوں نے سچائی کے تحفظ کیلئے اپنا گھر بار چھوڑ دیا اور ہم دس روپے کیلئے بھی جھوٹ نہیں چھوڑتے, وہ تمام عمر کردار سازی کی تعلیمات دیتے رہے اور ہم نے کردار ہی کا دھڑن تختہ کردیا, انہوں نے شرافت کا اعلیٰ ترین نمونہ قائم کیا ہم نے شرافت کا ہی جنازہ نکال دیا, انہوں نے جس بری خصلت سے ہمیں باز رہنے کی تلقین کی ہم نے ہر اس خصلت کو اپنی جبلت بنا لیا, کیا یہ تضاد نہیں ہے کہ یزید نے ایک ہی بار سفاکی کا مظاہرہ کیا آلِ رسول کو تکالیف پہنچائیں تو اسے ہم قیامت تک لعنت بھیجتے ہیں جبکہ ہم نے خود نبی کی آنکھو کی ٹھنڈک نماز کو ترک کر دیا تو ہم مومن کہلائے, یزید نے امام حسین کی ایک بار گردن کاٹی تو کافر ٹھہرا اور ہماری بدعمالیوں کے بدلے نبی کریم کو ہرروز شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے, تو ہم حب دار کہلوائیں,
بھائیو! خدا کیلئے ہمیں اس خودفریبی سے نکلنا ہوگا, محرم کا پیغام خود کو زخمی کر لینا یا چندروز ماتم کرنا نہیں ہے بلکہ یہ وہ عالمگیر پیغام ہے جس پر عمل کرکے ایک اعلیٰ ترین معاشرے کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے, بس ہمیں اس پیغام کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اللہ ہمیں حضرت امام حسین کی اس قربانی کے اصل مقصد کو سمجھنے کی توفیق دے اور ان کی تعلیمات پر صحیح معنوں میں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے, آمین
تحریر: سعید مزاری
No comments:
Post a Comment