نام کالم: عرضداشت
تحریر: سعید مزاری (Rndaannews@gmail.com)
عنوان: روس ، یوکرین جنگ، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا چہرہ ایکبار پھر بے نقاب
روس نے یوکرین پر حملہ کرکے اس کے کئی علاقوں پر قبضہ کرلیا عین ممکن ہے کہ جب تک یہ مضمون شائع ہو اس وقت تک روس یوکرین کے دارلحکومت پر بھی قابض ہو چکا ہو۔ کیونکہ تاوقت تحریر آمدہ اطلاعات کے مطابق روسی فوج اور یوکرینی افواج کے درمیان یوکرین کے دارالحکومت کیئف کے قریب گھمسان کی لڑائی جاری ہے۔
یوکرین سابق سویت یونین سے الگ ہونیوالے تمام ممالک اور ریاستوں میں رقبے، آبادی، فوجی طاقت، قدرتی ذخائر کے علاوہ سیاسی سماجی اور معاشی وسائل کے حوالے سے سب سے بڑا ملک ہے۔ یوکرین سوویت یونین سے آزاد ہونیوالے ممالک میں سے وہ واحد ملک بھی ہے جس کے پاس دنیا کا تیسرا بڑا ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ تھا۔ یوکرین دنیا کی کل ضرورت کا تیس فیصد گندم پیدا کرنیوالا ملک ہے جبکہ پورے یورپ کو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کیلئے یورینیم فراہم کرتا ہے۔ یوکرین کی صنعتی شعبے کو بھی پوری دنیا میں نمایاں مقام حاصل ہے۔
یوکرین کی فوج عددی لحاظ سے پاکستان کی فوج سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ یوکرین کی فوج عراق، افغانستان سمیت نیٹو کے جھنڈے تلے ہر محاذ پر ہمیں برسرپیکار دکھائی دیا۔ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ نیٹو کے چھترسایہ میں امریکی مفاد میں جتنی جنگیں جن جن ممالک میں لڑی گئیں ان سب میں یوکرین کی فوجی طاقت قربانی کے بکرے کی طرح پیش پیش رہی۔ دراصل امریکہ، فرانس، برطانیہ اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے یوکرین کو بے تحاشہ سبز باغ دکھائے گئے یہاں تک کہ 1999 میں یوکرین سے سی ٹی بی ٹی جیسے خود کش معاہدے پر دستخط کروا کر اس کے تمام ایٹمی ہتھیار امریکہ اور اتحادیوں نے لے لیے اور یوکرین کا سارا ایٹمی پروگرام ختم کروا دیا۔ یوکرین کو روسی حملے کا خدشہ ہمیشہ سے تھا اور اسی خطرے کو مدنظر رکھ کر ہی یوکرین نے اپنی ایٹمی پروگرام کو وسعت دی تھی لیکن امریکہ اور اتحادیوں کی چالاکیوں کے سامنے یوکرین بے بس ہوگیا۔ امریکہ اور اتحادیوں نے ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کے بدلے میں کسی قسم کے بیرونی حملے کی صورت میں تحفظ اور ہر طرح کے دفاعی تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔ اور یوں یوکرین جیسا عظیم طاقتور ملک آج صرف ایک غلطی کی وجہ سے روس کے غضب کا شکار ہے۔ وہ واحد غلطی یہ تھی کہ یوکرین نے غیروں کے بہکاوے میں آ کر اپنی دفاعی صلاحیت کم کردی اور سمجھ بیٹھا کہ کسی بھی خطرے کی صورت میں کوئی اور اس کی لڑائی لڑے گا۔ جبکہ یہی نیٹو ممالک اسی یوکرین کو اس وقت بھی تنہا چھوڑ گئے تھے جب یہی روس اس سے کریمیا کو چھین رہا تھا۔
سویت یونین کے خاتمے کے بعد روس اور دیگر عالمی طاقتوں کے درمیان یہ طے ہوا تھا کہ وہ یوکرین اور دیگر ایسی ریاستوں کو جو سویت یونین کا حصہ تھیں یورپی یونین میں شامل نہیں کرینگے۔ یوکرین نے معاہدے کی پاسداری نہیں کی اور یورپ سے پینگھیں بڑھانا شروع کردیں روس نے یوکرین کو اس حرکت سے باز رکھنے کیلئے مختلف طریقوں سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن یوکرین امریکہ فرانس برطانیہ اور ان کے اتحادیوں کے دھوکے میں رہا۔ اب چونکہ امریکہ اور اس کے اتحادی روس اور چین کے گرد گھیرہ تنگ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے اور اس لیے یوکرین کو یورپی یونین میں شامل کرنے کا جھانسہ دیکر وہاں اپنا بیس بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے تو ایسے میں روس کے پاس سوائے اس اقدام کو طاقت کے زور پر روکنے کے کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی آخری وقت تک یوکرین کو دلاسے دیتے رہے۔ امریکی خفیہ ایجنسیز کئی ماہ قبل ہی یہ رپورٹ دے چکے تھے کہ روس یوکرین پر حملہ آور ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود امریکی حکام نے یوکرین کو اندھیرے میں رکھا۔ اب جب روسی افواج نے یوکرین کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تو اب یوکرینی صدر امریکہ اور اس کے اتحادیون کو وعدے اور معاہدے یاد دلواتا پھر رہا ہے، اور کہیں سے کوئی مدد نہ پا کر کہنے پر مجبور ہو گیا کہ امریکہ نیٹو اور ان سب کے اتحادیوں نے انہیں تباہی و بربادی کیلئے تنہا چھوڑ دیا ہے۔
امریکہ کی تاریخ رہی ہے کہ اس نے اپنے اتحادیوں کو ہمیشہ ہی دھوکہ دیا۔ امریکہ ہمیشہ اپنے مفادات کیلئے دوسرے ممالک کو استعمال کرتا ہے اور ان کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلاتا ہے۔ جب مطلب نکل جائے تو پھر پلٹ کر خبر تک نہیں لیتا۔ یہی کچھ امریکہ نے یوکرین کا ایٹمی پروگرام رول بیک کروا کر کیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اس وقت سرف زبانی بیان بازی تک ہی یوکرین کا ساتھ دے رہے ہیں جبکہ اس وقت یوکرین کو عسکری امداد اور ساتھ کی ضرورت ہے اور امریکہ سمیت تمام اتحادیوں نے روس کے مقابلے میں اپنی فوج بھیجنے سے صاف انکار کردیا۔
امریکہ نے پاکستان کو بھی اسی طرح کئی مرتبہ استعمال کیا لیکن جب بھی پاکستان کو اس کی ضرورت پڑی امریکہ نے پیٹھ دکھا دی۔ امریکہ نے پاکستان پر بھی مختلف طریقوں سے اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کیلئے دباؤ ڈالا اور اپنے ساتھ ہونے کی جھوٹی تسلیاں دیتا رہا لیکن شکر ہے کہ پاکستان اس کے جھانسے میں نہیں آیا۔ بات ہو رہی تھی روس اور یوکرین جنگ کی تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ روس کو یوکرین سے جنگ کی قطعی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی حملے کیلئے کوئی معقول جواز موجود تھا۔ روس دراصل امریکہ سبق سکھانا چاہتا ہے کہ اگر تمہاری شیطانی چالیں نہ رکیں تو تمہارے اتحادیوں کا یہی حشر ہوگا۔ خبروں کے مطابق روس نے پولینڈ کو بھی خبردار کردیا کہ نیٹو شیٹو کے چکر میں آکر روس سے متعلق کوئی غلطی نہ کر بیٹھنا ورنہ یوکرین جیسا ہی حشر ہوگا۔
عالمی منظر نامے پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار اس وقت دنیا کو دو گروہوں میں بانٹتے دکھائی دیتے ہیں جن میں ایک طرف امریکہ فرانس برطانیہ اسرائیل بھارت اور ان کے دیگر اتحادی ہیں جبکہ دوسری جانب روس چین پاکستان اور ان کے اتحادی ہیں۔ تیزی سے بدلتے حالات سے ظاہر ہے کہ مفادات کا ٹکراؤ دونوں گروہوں میں تیزی سے بڑھ رہا ہے جو تیسری عالمی جنگ کی طرف پیشقدمی کو ظاہر کررہا ہے۔
یوکرین کو فتح کرنے کے بعد عین ممکن ہے کہ روس اس پر قبضہ نہ کرے تاہم وہ یہاں پر اپنی کٹھ پتلی حکومت ضرور بنائے گا۔ کیونکہ موجودہ حکومت روس کو کسی صورت قابل قبول نہیں۔ جنگ میں فتح یا شکست سے بالاتر ہوکر یوکرین میں ایک چیز جو سب منفرد دکھائی دی وہ وہاں کے صدر ولادیمیر کی ہمت اور بہادری ہے۔ ہم نے عام طور پر دیکھا کہ جہاں کوئی ملک جنگ ہار جائے تو عام طور پر وہاں کے حکمران ملک چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں جس کی تازہ ترین مثال ہم افغانستان میں اشرف غنی اور اس کی کابینہ کے لوگوں کے فرار کی شکل میں دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح انہوں نے اپنی قوم کو مشکل وقت میں قابض طالبان کے رحم وکرم پر چھوڑ کر خود جلاوطنی اختیار کرلی۔ اس کے مقابلے میں یوکرین کا صدر روسی حملے کے بعد جہاں امریکہ اور دیگر نیٹو ممالک کی بے وفائی کا گلہ کرتے دکھائی دے رہا ہے وہاں پر اس کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ وہ جنگ میں شکست کی صورت میں ملک سے بھاگنے کی بجائے لڑ کر مرنے کو ترجیح دے گا۔ اگر تو واقعی یوکرینی صدر اپنی بات پر قائم رہتا ہے اور ڈٹ مقابلہ کرتا ہے تو قطع نظر جنگ میں شکست کے اس کا یہ کردار تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا اور دنیا کی جنگی تاریخ میں اسے ہیرو کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
روس اور یوکرین بظاہر پاکستان سے بہت دور ہیں لیکن ان کے درمیان جاری اس جنگ کے اثرات سے پاکستان سمیت دنیا کے اور بے شمار ممالک متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ پاکستان اور روس کے درمیان ابھی روابط اس نہج پر نہیں ہیں کہ جس سے ہماری مشکلات میں خاطر خواہ کمی واقع ہو تاہم یوکرین کی اس تباہی سے پاکستان کو اس لحاظ سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کہ پاکستان یوکرین سے گندم کی بہت بڑی کھیپ اپنی ضروریات کیلئے منگواتا تھا اس کے علاوہ دفاعی سازوسامان کی تیاری کیلئے پارٹس بھی یوکرین سے ہی آتے تھے۔ ہر سال پاکستانی نوجوانوں کی بڑی تعداد روزگار اور تعلیم کے سلسلے میں یوکرین کا سفر کرتی ہے۔ جو کہ اب ممکن نہیں رہا۔ یوکرین کا خطہ اب کسی بھی طرح روس کی چھترچھاؤں میں جنگ کے اثرات سے اتنی جلدی نہیں نکل پائے گا۔ وہاں کے شہر گاؤں اور گلیاں دہائیوں تک اس جنگ کی تباہ کاری کی داستان سناتے رہینگے۔ اس جنگ سے دنیا اور خاص طور پر یورپ اور امریکہ کے دلدادہ اسلامی ممالک کیلئے بہت بڑا سبق ضرور موجود ہے۔ کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں اپنے دفاعی معاملات میں ذرہ برابر بھی کوتاہی کی گنجائش نہیں ہے۔ کوئی بھی خواہ آپ کے کتنے ہی قریب کیوں نہ ہو وہ آپ کیلئے کسی سے قطعی نہیں لڑے گا۔ خاص طور پر یورپ یا امریکہ تو کسی صورت کسی سے وفا نہیں کرتے۔ پاکستان کیلئے تو روس اور یوکرین کی لڑائی ایک سبق ہے کہ امریکہ ہو یا اس کے اتحادی یاپھر چین روس اور ان کے اتحادی کسی کے بھی بہکاوے میں آکر ہمیں اپنی دفاع سے غافل نہیں ہونا بلکہ ہمارا اتحاد جس کسی سے بھی ہو اس میں بنیادی نقطہ جو سب سے مقدم ہونا چاہیے وہ ہمارے دفاعی پروگرام کا تحفظ اور اس میں مزید اضافے کیلئے عملی تعاون ہے۔ یوکرین کا دشمن فقط روس تھا جبکہ پاکستان تو چاروں اطراف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے تو اس لیے پاکستان کو اس وقت بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کے پاس اب امریکہ یا اس کے اتحادیوں پر ایک فیصد بھی بھروسہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ تاریخ کئی بار ثابت کرچکا ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت اور اس کے مفادات کو ہی ترجیح دی ۔
No comments:
Post a Comment