Add 1

Tuesday, June 13, 2023

تخت پنجاب اور اسلام آباد پر کس کا راج ہوگا؟ نیا لندن پلان سامنے آ گیا، آصف زرداری سے وعدہ خلافی، نتیجہ کیا نکلے گا؟

استحکام پاکستان کے پیٹرن انچیف جہانگیر ترین آج کل لندن میں مقیم ہیں۔ اور ذراٸع کے مطابق جہانگیر ترین کی اب تک ن لیگی قاٸد نواز شریف سے ایک طویل نشست بھی ہوچکی ہے۔ اس ملاقات کے حوالے سے اور ملکی سیاست کی تیزی سے بدلتی صورتحال کے حوالے سے بہت ہی اہم انکشافات سامنے آ رہی ہیں۔ ذراٸع کا دعویٰ ہے کہ جہانگیر ترین اور نواز شریف کی ملاقات کو اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جاٸے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہی ممکنہ طور پر یہ پلان بنا کر جہانگیر ترین کو نواز شریف سے ملاقات اور مذاکرات کیلٸے لندن بھیجا۔ صاحب احوال ذراٸع کے مطابق جہانگیر ترین اسٹیبلشمنٹ کا منصوبہ یا پلان لے کر لندن گٸے۔ اور ابتداٸی ملاقات میں پلان کی تفصیلات پر سیر حاصل گفتگو کی گٸی۔ 
عمران خان کی حکومت کو گرانے میں پی ڈی ایم جماعتوں کا کردار رہا ہے۔ اس کام کیلٸے اگر پاکستان پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا ساتھ نہ دیتی تو شہباز شریف کی حکومت بن ہی نہیں سکتی تھی۔ پیپلز پارٹی نے یہ سب کچھ باقاعدہ ایک معاہدے کے تخت ہی کیا۔ 
عمران خان کی حکومت گرانے کیلٸے تمام اپوزیشن نے جس معاہدے کے تحت یہ ساری جماعتیں اکٹھی ہوٸیں اس معاہدے کے تحت عمران خان کی حکومت گرانے کے بعد اسمبلیوں کے باقی ماندہ مدت کیلٸے پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزیراعظم بنوا دیا۔ رجیم چینج آپریشن یا پھر عمران خان حکومت کے خلاف تحریک کے وقت پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان ڈیل ہوٸی تھی کہ فوری طور پر ملک کی وزارت اعظمیٰ کا منصب ن لیگ یعنی شہباز شریف کو دی جاٸے گی اور پھر اگلے پانچ سال کیلٸے وفاق میں پیپلز پارٹی حکومت بناٸے گی اور پنجاب میں ن لیگ کو وزارت اعلیٰ کا منصب ملے گا۔ اس دوران قانون سازی کے ذریعے نواز شریف مریم نواز وغیرہ کی سزاٸیں ختم کرواٸی جاٸیں گی اور پھر اس سے اگلے 
پانچ سال ن لیگ ملک کا تخت سنبھالے گی۔ یہی وجہ تھی کہ آصف زرداری نے جہاں ایک طرف پی ڈی ایم اتحادی حکومت کا ساتھ دیا اور ساتھ ساتھ بلاول بھٹو کی مناسب تربیت اور اسکے وزیراعظم بننے کیلٸے راہ ہموار کرنا شروع کردیا۔ آصف زرداری پہلے ہی یہ خواہش ظاہر کر چکے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں بلاول کو وزیراعظم بنتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس ہی لیے آصف زرداری نے اسٹیبلشمنٹ سے متعلق سخت موقف بھی ترک کردیا۔ بلکہ ان کے حق میں بولتے دکھاٸی دیٸے۔
سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا لیکن بات اس وقت بگڑ گٸی جب ن لیگ کے قاٸد نواز شریف نے مریم نواز کو وزیراعظم بنانے کیلٸے منصوبہ بندی اور گٹھ جوڑ کا آغاز کیا۔ یہاں سے اندرونی طور پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں پھڈا شروع ہوگیا۔ اور صورت حال سرد جنگ کی صورت اختیار کر گٸی۔ اس کا اظہار ہم باغ کے ضمنی الیکشن اور نواز شریف کی طرف سے آصف زرداری کے پنجاب جلسے کی مخالفت اور پیپلز پارٹی کو پنجاب میں جڑیں مضبوط کرنے سے روکنے کی ہدایات کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران ن لیگ اور پیپلز پارٹی کےدرمیان اختلافات میں ناصرف اضافہ ہوا بلکہ یہ اختلافات کھل کر سامنے بھی آٸے۔ البتہ اس سب میں پی ٹی آٸی سے علیحدگی اختیار کرکے جہانگیر ترین کی قیادت میں استحکام پاکستان کی چھتری میں جانے والوں کی سرگرمیوں نے پاکستان کے اسٹیبلشمنٹ کے جھکاٶ اور اگلے منصوبے سے پردہ ہٹا دیا ہے۔ پلان یہ تھا کہ پی ٹی آٸی سے بندوں کو توڑ کر پی پی پی میں شامل کروایا جاٸے گا اور پھر وفاق میں بلاول کو وزارت اعظمیٰ سونپی جاٸے گی جبکہ صوبے میں ن لیگ کی حکومت ہوگی اور ن لیگ کی طرف سے عبدالعیم خان کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوایا جاٸے گا۔ لیکن اب سارا پلان بدل چکا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی ن لیگ سے مبینہ طور پر ڈیل ہوگٸی ہے اور اس لیے جہانگیر ترین کو نیا پلان دے کر نواز شریف سے معاملات فاٸینل کرنے کیلٸے لندن بھیجا گیا ہے۔ اب نٸے پلان کے مطابق پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب عبدالعلیم خان کی بجاٸے ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے دیرینہ وفادار ساتھی سابق ناظم لاہور میاں محمد عامر محمود کو استحکام پاکستان کے پلیٹ فارم سے وزیراعلیٰ پنجاب بنوایا جاٸے گا۔ بظاہر ن لیگ تخت لاہور سے دستبردار ہوجاٸے گی۔ البتہ وفاق میں جہانگیر ترین کی پارٹی ن لیگ سے اتحاد کرے گی اور مریم نواز کو وزیراعظم بنوانے کیلٸے ن لیگ کا ساتھ دے گی۔ اس طرح پیپلز پارٹی کا پنجاب میں قدم جمانے کا خواب ناصرف ٹوٹے گا بلکہ وفاق میں حکومت بنانا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ 
باوثوق ذراٸع کے مطابق شہباز شریف اور نواز شریف پیپلز پارٹی کے کو_چیٸرمین آصف زرداری سے کیے گٸے وعدے اور معاہدے سے مکر چکے ہیں اور آصف زرداری کو بھی اس بات کا علم ہوچکا ہے۔ اس لیے آنے والے چند دنوں میں بلاول بھٹو وزارت خارجہ کا منصب اور پی پی پی کے دیگر رہنما بھی وزارتوں اور حکومتی عہدوں سے استعفیٰ دے کر اپوزیشن بنچوں پر جا سکتے ہیں۔ دوسری جانب جہانگیر ترین اور نواز شریف کے درمیان لندن میں ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ باخبر ذراٸع کے مطابق جہانگیر ترین اسٹیبلشمنٹ کی ہدایت پر نواز شریف سے مل کر سارے پلان کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق نواز شریف نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے دستبرداری پر آمادگی ظاہر کی ہے اور میاں عامر کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے پر بھی رضامندی ظاہر کردی ہے۔ زیر مشاورت پلان کے مطابق وفاق میں ن لیگ ، پنجاب میں استحکام پاکستان جہانگیر ترین کی جماعت حکومت بناٸیں گے جبکہ جنرل الیکشن کے بعد جلد ہی بلدیاتی الیکشن بھی کرواٸے جاٸیں گے اور اس سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کے بلدیاتی نماٸندوں اور رہنماٶں کو ڈرادھمکا کر پی ٹی آٸی سے الگ کیا جاٸے گا پھر بلدیات میں ن لیگ اور جہانگیر ترین کی پارٹی کو تقریباً برابر برابر حصہ دیا جاٸے گا۔ اس طرح اگلے پانچ سال پی پی پی کو فقط سندھ تک محدود رکھا جاٸے گا جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں عملی طور پر ن لیگ اور استحکام پاکستان کو حق حکمرانی ملے گی۔ اس سارے کھیل میں پیپلز پارٹی کو بھی پی ٹی آٸی کی طرح کمزور کرنے کی کوشش کی جاٸے گی۔ کے پی میں جے یو آٸی اور اے این پی کی مخلوط حکومت قاٸم کی جاٸے گی۔ اس میں ممکنہ طور پر مولانا فضل الرحمان کے بیٹے کو وزیراعلیٰ بناٸے جانے کی توقع ہے۔ جبکہ بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ بی اے پی کو دوبارہ منظم کرکے پی پی کا اثر رسوخ کم کرواٸے گی۔ اسی فارمیشن پر اگلے پانچ سال حکومت چلے گی۔ اس منصوبے کو باضابطہ بنانے کیلٸے جہانگیر ترین پندرہ روزہ دورے پر لندن میں موجود ہیں۔ اور پواٸنٹ ٹو پواٸنٹ چیزوں کو حتمی شکل دے کر معاہدے کو فاٸینل کرنے میں لگے ہوٸے ہیں۔ اس سارے معاملے میں ایک روز روشن کی طرح طے ہے کہ پیپلز پارٹی سے ایکبار پھر دھوکہ کیا گیا۔ اور آنے والے دنوں میں بلاول بھٹو اور مریم نواز ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہونگے۔
 اس وقت جس مخالفت سے عمران خان اور ان کی پارٹی گزر رہی ہے بہت جلد اسی شدت سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلا رہے ہونگے۔ اور ملک کی تباہی کے الزامات ایک دوسرے پر لگا رہے ہوں گے۔ یہ کھیل بہت جلد شروع ہونے والا ہے ممن ہے اسی جون کےمہینے میں ہو یا پھر جولاٸی کے پہلے دوسرے ہفتے میں۔ البتہ بہت جلد ملک کی سیاست نٸی کروٹ لینے کو تیار ہے۔ کس کو کامیابی میسر آتی ہے اور کون ناکامی سے دوچار ہوگا یہ فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔ اس گھمسان کی لڑاٸی کا جو بھی نتیجہ نکلے اس کا فاٸدہ بھی انہیں سیاستدانوں کو ہوگا عوام اس کھیل میں پہلے سے کہیں زیادہ مشکل صورتحال سے دوچار رہے گی۔ کیونکہ اس کی بہتری کیلٸے کسی کے پاس نہ کوٸی منصوبہ ہے اور نہ ہی عوامی فلاح پر سوچ بچار کیلٸے مقتدر حلقوں کے پاس وقت۔ عوام کے حصے میں فقط نعرے ہی آنے والے ہیں۔ فلاں زندہ باد اور فلاں مردہ باد۔

No comments: