اب چونکہ دن بدن الیکشن قریب آ رہے ہیں تو ایسے میں مختلف نظریات اور الگ سوچ کے حامل تمام جماعتوں اور سیاسی گرگٹوں نے عوام کو پھر سے دھوکہ دینے کیلٸے آہستہ آہستہ رنگ بدلنا شروع کردیا۔ تخت پنجاب پر قبضے کے حوالے سے اندرون خانہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں ایک سرد جنگ کا آغاز ہوچکا ہے اور اس صورتحال کا فاٸدہ اٹھانے کیلٸے فصلی سیاسی پرندے بھی اپنے حصے کا دانہ چگنے کیلٸے تیار ہیں اور اس حوالے سے مختلف حکمت عملیوں پر عمل جاری ہے اور کچھ لوگ ابھی تک ” ویٹ اینڈ سی “ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
ان تمام حالات میں ایک خبر نے شہباز سرکار کو مشکل میں ڈال دیا۔ اور یہ خبر صوبہ بلوچستان سے مصیبت بن کر شہباز سرکار کے سر پر آن لگا۔ شہباز شریف نے ملکی سلامتی، سالانہ بجٹ اور موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس بلا رکھا تھا جو کل یعنی منگل کے روز منعقد ہونا تھا۔
اس اجلاس میں وفاقی حکومت اور صوبوں کے نماٸندگان کی شرکت متوقع تھی۔ تاہم اجلاس سے ایک دن قبل وزیراعلیٰ بلوچستان نے وزیراعظم کی طرف سے بلواٸے گٸے اس اجلاس میں شرکت سے انکار کرتے ہوٸے کہا کہ چونکہ پی ڈی ایم حکومت نے وعدے پورے نہیں کیٕے اور نہ ہی بلوچستان کی عوام کیلٸے کوٸی خاطر خواہ ریلیف کا کوٸی قدم اٹھایا ہے۔ تو اس لیے وزیراعظم کی طرف سے بلواٸے گٸے اس این ای سی اجلاس میں بلوچستان حکومت کی طرف سے کوٸی نماٸندہ شرکت نہیں کرے گا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے شہباز شریف حکومت پر الزام لگایا کہ ان کی حکومت نہ تو بلوچستان کو این ایف سی کا حصہ دے رہی ہے اور نہ ہی وفاق نے بلوچستان کیلٸے اعلان کردہ دس ارب روپے کی رقم صوبے کو جاری کی۔ ہم نے پی ڈی ایم کا ساتھ عوام کی فلاح کیلٸے دیا تھا لیکن شہباز شریف کی حکومت وعدے وفا کرنے میں کوٸی سنجیدگی نہیں دکھا رہی۔ اس لیے بطور احتجاج منگل کومتوقع این ای سی اجلاس میں بلوچستان کا کوٸی نماٸندہ شرکت نہیں کرے گا۔
ملکی حالات پر نظر رکھنے والے اور صورتحال کا بغور تجزیہ کرنیوالے ذراٸع نے دعویٰ کیا کہ مید عبدالقدوس بزنجو کا یہ اعلان ایک طرح سے پی ڈی ایم حکومت کے خلاف خطرناک ترین اعلان ہے اور اس اعلان نے حکومتی ایوانوں کو ہلا دیا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چونکہ الیکشن اب قریب سے قریب تر ہوتے جارہے ہیں تو اس حوالے سے اب آہستہ آہستہ پی ڈی ایم جماعتیں اس اتحاد سے نکلنے کیلٸے بہانے تلاش کررہی ہیں۔ اور اگر واقعی بلوچستان کل اس اجلاس میں شرکت نہیں کرتا تو اسے پی ڈی ایم میں پھوٹ کا آغاز تصور کیا جاٸے گا اور پھر یہ سلسلہ مزید آگے چلے گا اور پھر باقی جماعتیں بھی اس اتحاد کی کمزور شاخ سے اڑنا شروع ہوجاٸینگے اور آخر میں ن لیگ ہی پر ان ڈیڑھ سالہ حالات کا ملبہ ڈال دیا جاٸے گا۔ اس سب کا براہ راست فاٸدہ پیپلزپارٹی کو ہوگا۔
No comments:
Post a Comment