Add 1

Thursday, June 15, 2023

طاہر رندھاوا کے بعد محمود مولوی کا بیان بھی آ گیا، ترین کی استحکام پارٹی بکھرنے میں تیز ترین نکلی

نو مٸی کا بہانہ بنا کر جس عجلت میں پاکستان تحریک انصاف کو توڑ کر جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی بناٸی گٸی۔ بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ کی یہ پارٹی چند روز بھی قاٸم نہ رہ سکی۔ بڑے بڑے سیاسی ناموں کی موجودگی کے باوجود یہ پارٹی عوامی حمایت یا مقبولیت حاصل نہ کرسکی۔ اس لیے پاکستان تحریک انصاف کو خیرباد کہنے والے سیاسی لوگوں کو اپنی غلطی کا ادراک ہونے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے قیام کے دو روز بعد ہی اس میں ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس حوالے سے سب سے پہلا استعفیٰ طاہر رندھاوا کی طرف سے آیا جنہوں نے استحکام پاکستان پارٹی سے علیحدگی اختیار کی۔ اس کے بعد دیگر کٸی لوگ بھی پس پردہ جہانگیر ترین کی پارٹی سے علیحدگی کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں اور بہت سے تو پی ٹی آٸی میں واپسی کیلٸے عمران خان سے رابطے کررہے ہیں۔ تحریک انصاف کو چھوڑنے کے حوالے سے پہلی پریس کانفرنس کرنے والے محمود مولوی جو استحکام پاکستان پارٹی کے قیام کیلٸے سرگرم بھی تھے نے کہا ہے کہ وہ اس پارٹی کا حصہ نہیں ہیں۔ نجی چینل ہم نیوز کے مطابق محمود مولوی نے کہا ہے کہ وہ جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی کا حصہ نہیں ہیں۔ اور پارٹی کی تقریب میں ویسے ہی شریک ہوٸے ان کا کہنا تھا کہ استحکام پاکستان پارٹی کی تقریب میں ان کی طرح اور بھی بہت سے لوگ تھے جو پارٹی کا حصہ نہیں ہیں۔ 
جہانگیر ترین کو استعمال کرکے تحریک انصاف کو توڑنے والوں کو یہاں بھی بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ ایک ساتھ ایک سو سے زاٸد الیکٹیبلز کے پارٹی چھوڑ جانے پر بھی پی ٹی آٸی کی مقبولیت میں کوٸی کمی آٸی اور نہ ہی پٕی ٹی آٸی کے بیانیہ میں کوٸی فرق آیا۔ الٹا جو لوگ چھوڑ گٸے ان کی سیاست تباہ ہوگٸی۔ وہ لوگ اپنی اپنی عوام کے سامنے ذلیل و رسوا ہوگٸے ہیں۔ لیکن افسوس کہ قابل احترام اداروں میں بیٹھے چند لوگوں کی ضد اور انإ کی جنگ نے ملک پاکستان کو ناکافی نقصان پہنچا دیا۔ اس پر بھی مزید افسوس یہ کہ وہ سب کچھ دیکھ بھال کر بھی اپنی ضد اور انإ سے پیچھے ہٹنے کیلٸے تیار نہیں۔ اور بدمست ہاتھی کی طرح ملک کی ہر شٸے کو تہس نہس کرتے جارہے ہیں۔ ان کے اس عمل سے ملکی عوام کی ان سے محبت بڑی تیزی سے بدل رہی ہے وہ عوام جو دشمنوں کے ہر قدم کو ان سے پہلے ہی روک لیتی تھی آج انہیں اپنا محافظ اور خیرخواہ ماننے کو تیار نہیں۔ 

No comments: