تحریک انصاف کے 2 نومبر کے دھرنے کو ناکام بنانے کیلئے ن لیگی حکومت نے خوفناک حکمت عملی تیار کرلی ۔ خفیہ اجلاس کی تفصیلات منظرعام پر آ گئیں۔
ٹی وی رپورٹ:
نجی ٹی وی کے ایک ذرائع نے بتایا کہپی ٹی آئی کے 2نومبر کے دھرنے کو ناکام بنانے کیلئے ایک خفیہ اجلاس صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ کی سربراہی میں 7 کلب روڈ( وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ) میں منعقد ہوا ، جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی رانا مقبول ، چیف سیکرٹری پنجاب ، سیکرٹری داخلہ ، ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ ، آئی جی پنجاب ، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ ، ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے نمائندے نے شرکت کی ۔ یہ اجلاس بروز جمعرات مورخہ 20 اکتوبر کو اڑھائی بجے دوپہر شروع ہوا اور ساڑھے پانچ بجے تک جاری رہا ، جس میں بعدازاں کمشنر لاہور ڈویژن ، کمشنر گوجرانوالہ ، ریجنل پولیس آفیسر شیخوپورہ رینج ، ریجنل پولیس آفیسر گوجرانوالہ ریجن اور سی سی پی او لاہور نے بھی مذکورہ اجلاس میں ساڑھے پانچ بجے کے بعد شرکت کی ، سی سی پی او لاہور نے سب سے آخر میں میٹنگ میں اس وقت شرکت کی ،جب اجلاس بالکل اختتام کے قریب تھا ۔
تین قسم کی فہرستیں بنانے کا حکم
صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے پولیس ، انٹیلی جنس بیورو اور سپیشل برانچ کے حکام کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی تین کٹیگریز میں علیحدہ علیحدہ فہرستیں مرتب کرنے کا ٹاسک دیدیا ۔اجلاس میں تحریک انصاف کے کارکنان کی فہرستیں مرتب کرنے کا فیصلہ ہوا ہے اس حوالے سے تین کیٹگری کی لسٹیں تیارکرنے کے احکامات جاری ہوئے۔ کیٹگری اے میں مرکزی قیادت اور منتخب ارکان اسمبلی شامل ہیں۔ کیٹگری بی میں ڈویژنل اور ضلعی عہدیدار شامل ہیں جبکہ کیٹگری سی میں یونین کونسل کے چیئرمین ، کونسلرز، سرگرم کارکنان، ،سہولت کار،موبلائزر اور فنانسرز شامل ہیں۔ ڈسٹرکٹ پولیس افسران کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ضلع کی سپیشل برانچ، آئی بی کے نمائندوں اور سیکورٹی برانچزکے ذریعے فہرستیں مرتب کریں۔
حتمی فہرستیں مرتب کرنے کی ڈیڈ لائن
رانا ثناء اللہ نے پولیس ، سپیشل برانچ اور آئی بی کو منگل تک ہر صورت میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی تین علیحدہ علیحدہ کٹیگریز میں فہرستیں مرتب کرنے کا ٹاسک دیا تھا۔
فہرستوں کوفائنل کون کرے گا ؟
رانا مقبول کی سربراہی میں کمیٹی جس میں سیکرٹری داخلہ ، آئی جی اور پراسیکیوٹرشامل ہیں ، پی ٹی آئی کے رہنماؤں و کارکنوں کی گرفتاری یا نظر بندی کے حوالے سے سپیشل برانچ ، آئی بی اور پولیس کی جانب سے تیار کی گئی فہرستوں کو حتمی شکل دیں گے ۔
سیکرٹری داخلہ پنجاب وزیراعظم کے پاس کون سی فہرستیں لیکر اسلام آباد پہنچ رہے ہیں
سیکرٹری داخلہ میجر (ر) اعظم سلیمان ابتدائی فہرستیں لیکر وزیر اعظم کے پاس پہنچیں گے جہاں وہ وزیراعظم کو پی ٹی آئی کے 2 نومبر کے دھرنے کو ناکام بنانے کے حوالے سے تیار کی گئی حکمت عملی کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دیں گے ۔
کارکنوں کی نظر بندی کیلئے حکمت عملی
اجلاس میں سپیشل برانچ کو ایک اور ٹاسک یہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں سرگرم رہنماؤں،پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی ، ٹکٹ ہولڈرز، یونین کونسل چیئرمینوں ، کونسلرز ، سہولت کاروں ، موبلائزر اور فنانسرز کے علاوہ سرگرم کارکنوں کی2 نومبر کے دھرنے کی تیاری کے حوالے سے رپورٹس تیار کریں کہ ان کارکنان کی ’’خفیہ میٹنگز‘‘ ہوئیں جہاں یہ منصوبہ بندی بنی کہ مسلح افراد اور ڈنڈا بردار تحریک انصاف کے قافلوں کا حصہ ہوں گے۔ ان رپورٹس کی بنیاد پر متعلقہ ضلع کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر(ڈی پی اوز)ز ایم پی او کے تحت ڈسٹرکٹ کوآرڈی نیشن افسروں(ڈی سی اوز)کو احکامات جاری کرنے کیلئے کہیں گے، جن کی بنیادپر تحریک انصاف کے کارکنان کی گرفتاری یا نظر بندیاں عمل میں لائی جائیں گی۔ رانا ثناء اللہ اور رانا مقبول نے کہا کہ ڈی پی اوز سپیشل برانچ کی رپورٹس کو ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹرز سے بھی چیک کروائیں گے تاکہ کوئی قانونی سقم باقی نہ رہے ۔دوسری جانب رانا ثناء اللہ اور رانا مقبول نے کہا کہ سپیشل برانچ کی رپورٹس کی قانونی حیثیت بھی ہوتی ہے اس لئے یہ فرضی / جھوٹی (پیڈنگ ) رپورٹس ضرور تیار کی جائیں تاکہ عدالتوں میں حکومت کی سبکی نہ ہو۔
ڈی سی او کیسے حکمنامے جاری کریں ؟
راناء ثناء اللہ نے ڈی سی اوز کو ہدایت کی کہ وہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے بارے میں نظربندی کے احکامات میں ایک ہی طرح کی سٹیریو ٹائپ عبارت لکھنے سے گریز کریں اور کوشش کی جائے کہ مختلف آرڈرز میں گراؤنڈز بھی مختلف ہوں ۔ ڈی سی اوز کو یہ بھی ہدایت کی گئی کہ وہ اگر ڈی پی او کی طرف سے نظر بندی کے 20 مراسلے موصول ہوں تو اسی تاریخ میں 14 یا پندرہ آرڈر جاری کریں تاکہ یہ تاثر نہ ابھرے کہ انتظامی مشینری کوئی انتقامی کارروائی کررہی ہے ۔
عمران خان غداری کے مرتکب ؟ مگر کیسے ؟
خفیہ اجلاس میں سپیشل برانچ کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے حوالے سے رپورٹ پیش کریں ، جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ عمران خان پاکستان کے آئین کی غداری کے مرتکب ہورہے ہیں۔ منصوبہ یہ طے پایا کہ اس رپورٹ کے حوالے سے ایک ایف آئی آر درج کروا کر اسے سیل کردیا جائے۔ موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق اجلاس میں سپیشل برانچ کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ عمران خان کی تقریروں کے حوالے سے خصوصی رپورٹ تیار کریں جن کو بیک ڈیٹڈ کیا جائے جس کے ذریعے عمران خان کو آئین سے غداری کا مرتکب ثابت کیا جاسکے۔ اس رپورٹ کے پیش منظر عمران خان کی نظری بندی یا گرفتاری کی حکمت عملی طے کی گئی ہے۔
وکلاء کی خصوصی ٹیموں کی تشکیل
خفیہ اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ بڑے پیمانے پر نظربندیوں کے بعد نظر بند رہنماؤں اور کارکنوں کے عزیز و اقارب لاہور ہائیکورٹ اوراسلام آباد ہائیکورٹ رجوع کرکے آرڈر کالعدم کرانے کی کوشش کریں گے لہذاسلام آباد کے علاوہ راولپنڈی، لاہور،ملتان اور بہاولپورجہاں لاہور ہائیکورٹ کے بنچ ہیں ،ان کیسز کی پیروی کیلئے بڑے پیمانے پر وکلاء کی خدمات حاصل کی جائیں جو حکومت کی جانب سے پیش ہوں گے جنہیں فی کس 2 سے 4 لاکھ بھی دینا پڑے تویہ رقم سرکاری خزانے سے اداکی جائے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن ۔۔۔۔۔اور پولیس مورال ۔۔۔۔ریجنل پولیس افسر گوجرانوالہ کو رانا ثناء اللہ اور رانا مقبول نے کیا جواب دیا
اجلاس میں آر پی او گوجرانوالہ کا یہ کہنا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد سپاہ (پولیس فورس) بہت ڈی مورال ہوچکی ہے، جس پر رانا ثناء اللہ اور رانا مقبول نے یہ کہا کہ پولیس کا مورال بلند کریں اور انہیں عمران خان کیخلاف موٹیویٹ کریں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ حکومت کا اس میں کوئی ذاتی مفاد نہیں بلکہ یہ سب کچھ ملکی مفاد کے تحت کیا جارہا ہے، عمران خان غیر آئینی اقدامات کرکے ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ۔ رانا ثناء اللہ نے آئی جی پنجاب کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ ان سے پوچھیں کیا ہم سانحہ ماڈل ٹاؤن سانحہ کے ذمہ داروں کیساتھ معاونت نہیں کررہے ؟ کیا ہم ان کی مالی امداد نہیں کررہے ؟ ہم نے کیا ذمہ دار پولیس افسروں کو بیرون ملک نہیں بھیجا؟ کیا اتنی زیادہ سٹیٹ مشینری استعمال کرنے کے باوجود ان کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی ؟ لہذا ایسی بات نہیں ہے۔ اور اسی طرح آئندہ بھی حکومت ایسے افسروں اوراہلکاروں کیساتھ کھڑی ہوگی۔ رانامقبول نے کہا کہ ہم نے سو گنا پولیس کی تنخواہیں بڑھائی ہیں، انہیں نوکریاں دی ہیں ۔ پولیس کو یہ باور کرایا جائے کہ عمران خان جو کام کرنے جارہے ہیں وہ غیرآئینی ہے۔
کنٹینر وں میں کیا بھرا جائے گا؟
آئی جی پنجاب نے ماتحت پولیس افسروں کو ہدایت کی کہ خالی کنٹینروں کو پکڑا جائے اور ان کو راستوں پر رکھ کر ان کو ریت یا مٹی سے بھرا جائے تاکہ اگر بڑی تعداد میں پولیس کی رکاوٹیں توڑ دھرنے میں شامل ہونے والے افراد پہنچ بھی جائیں تو وزنی ہونے کی بناء ان کو راست سے نہ ہٹا سکیں ۔
رکاوٹیں کہاں کہاں ہوں گی ؟
آئی جی پنجاب نے ڈی پی او قصور اور ڈی پی او گجرات کے سوال پر بتایا کہ ہر ضلع میں مختلف تحصیل اور قصبہ میں رکاوٹیں(چوکنگ پوائنٹس) کی نشاہدہی کرلی جائے تاکہ یہاں سے کسی کو آگے نہ جانے دیا جائے اور اگر لوگ احتجاج کرکے یہی بیٹھ جائیں تو ان پر لاٹھی چارج ، شیلنگ یا ہوائی فائرنگ نہ کی جائے ۔اور میڈیا کی موجودگی میں لاٹھی چارج وغیرہ سے گریز کیا جائے تاہم میڈیا کی عدم موجودگی میں انکی خوب ٹھکائی کی جائے ۔
میڈیا مینجمنٹ کمیٹی میں کون کون شامل ، اور اسکی کیا ذمہ داریاں
2 نومبر کے قافلوں کی کم سے کم کوریج اور پولیس کی پی ٹی آئی کے رہنماؤں و کارکنوں سے جھڑپوں کی کوریج کو روکنے کیلئے رانا مقبول کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں سیکرٹری داخلہ ، سیکرٹری اطلاعات ، آئی جی اور ڈی جی پی آر بھی شامل ہونگے ۔
گرفتاریاں کب ہونگی ؟
ڈی پی او قصور نے دریافت کیا کہ گرفتاریاں کب سے شروع کرنی ہیں ، جس پر رانا ثناء اللہ نے بتایا کہ گرفتاریوں یا نظربندیوں کے حوالے سے 2 یا 3 گھنٹے قبل بتادیا جائے گا ۔
گرفتاریوں اور نظربندیوں کا سگنل کون دے گا ؟
شرکاء کو بتایا گیا کہ نظر بندیوں اور گرفتاریوں کے بارے میں وفاقی حکومت حتمی فیصلہ کرے گی کہ کب نظربندیوں اور گرفتاریوں کا عمل شروع کرنے ہے تاہم پولیس اور انتظامیہ اس حوالے تیار رہی گی اور حکم ملتے ہی عملدرآمد کو یقینی بنائے گی ۔
گرفتار یا نظر بند رہنماؤں وکارکنوں کو کہاں رکھا جائے گا؟
رانا ثناء اللہ نے پولیس حکام کو ہدایت کی کہ گرفتار یا نظر بند رہنماؤں کو اس ضلع میں بند نہ کیا جائے جہاں کے وہ رہائشی ہیں بلکہ ان کو دوردراز کے اضلاع تھانوں اور جیلوں میں رکھا جائے ۔
جڑواں شہروں اور کے پی کے سے دھرنے میں شریک ہونیوالوں کو روکنا کس کی ذمہ داری
رانا ثناء اللہ نے بتایا کہ راولپنڈی ڈویژن ، اسلام آباد اور خیبر پختونخواہ سے دھرنے میں شرکت کرنیوالوں کو روکنے کی ذمہ داری وفاقی وزیر داخلہ کی ہوگی اور ان تمام معاملات کی وہ براہ راست نگرانی کریں گے ۔
جڑواں شہروں کے ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کی کڑی نگرانی
جڑواں شہروں کے ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کے بارے میں پولیس ،انتظامیہ، سپیشل برانچ اور آئی بی کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ ان پر نظررکھیں کہ کہیں ان میں دھرنے میں شرکت کرنیوالے تو پہلے سے آکررہائش پذیز نہیں ہوگئے ، اس حوالے گیسٹ ہاؤسز اور ہوٹل مالکان کو تنبیہ کی جائے کہ وہ ایسے لوگوں کو ٹھہرائیں جو معمول کے وزٹرز ہیں ۔
افغان آبادیوں اور مہاجروں کی نگرانی ؟
پولیس اور سپیشل برانچ کو راناء ثناء اللہ نے ہدایت کہ افغانیوں اورافٖٖغان مہاجرین کا بھی دھرنے میں شمولیت کا خدشہ ہے اس لئے افغان آبادیوں اور مہاجرین پرنہ صرف کڑی نظر رکھی جائے بلکہ انکے خلاف سرچ آپریشن بھی کیا جائے ۔
کون کون سے مین راستے بند ہونگے ؟
اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ راوی پل ، لاہور اسلام آباد موٹروے سکیشن ، جی ٹی روڈ ، چناب پل ، جہلم پل اور اٹک پل کے علاوہ پشاور سے راولپنڈی و اسلام آباد آنیوالے راستوں کو بھی بند کردیا جائے گا ۔
اسحاق ڈار کی سربراہی میں کمیٹی کیا کرے گی ؟
وزیر اعظم کے سمدھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں حکومتی کمیٹی میڈیا اور عوام کو مس لیڈکرنے کیلئے بار بار میڈیا پر آکر یہ تاثر دینے کی کوشش کرے گی کہ حکومت پی ٹی آئی کی تقریباً تمام شرائط ماننے کو تیار ہے اور وزیر اعظم اور انکی فیملی بھی خود کو احتساب کیلئے پیش کرنے کی پہلے بھی پیشکش کرچکے ہیں ، اب بھی تیار ہیں لہذا پی ٹی آئی کے دو نومبر کے دھرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
No comments:
Post a Comment